کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 83
کی سرکردگی میں پہنچ گیا۔ اُس نے بھی آکر یہی مطالبے دہرائے۔ سیدناحسین رضی اللہ عنہ نے کہا میں بیعت نہیں کرسکتا، میں مکہ واپس چلا جاتا ہوں ، آپ میرا راستہ چھوڑ دیں ۔مگر اُنہوں نے انکار کیا کہ اب صرف دو ہی راستے ہیں یا بیعت کریں یا ابن زیاد کے پاس چلیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے دونوں باتوں سے شدت سے انکار کیا۔ آخر ابن زیاد کے حکم پرقافلۂ حسین رضی اللہ عنہ پر پانی بند کردیا گیا۔ اس کے بعد شمر ذی الجوشن بھی ایک مزید دستہ لے کر آن پہنچا اور حالات میں مفاہمت اور مصالحت کا کوئی امکان باقی نہ رہا۔
اب تصادم ناگزیر ہوگیا۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ بھی اپنے ۷۲ ساتھیوں کے ساتھ مقابلے کونکلے۔ ۱۰ محرم۶۱ہجری کو کربلا کے میدان میں یہ معرکہ ہوا۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھی بہادری سے لڑتے ہوئے ایک ایک کرکے سب شہید ہوگئے۔ ایک شقی القلب’سنان بن انس‘ نے آگے بڑھ کر سیدناحسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک تن سے جدا کردیا۔ اس معرکہ میں علی بن حسین رضی اللہ عنہ کے علاوہ تمام مرد کام آئے۔ یہی علی بن حسین رضی اللہ عنہ بعد میں ’زین العابدین‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد اہل بیت کا قافلہ کوفہ بھیجا گیا۔ ابن زیاد نے اُسے آگے شام بھجوا دیا۔ یہ حادثہ عظمیٰ یزید کی لاعلمی اور غیر موجودگی میں پیش آیا۔ اس نے تو صرف بیعت لینے یا بحفاظت شام بھجوانے کا حکم دیا تھا، لڑنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ یزید کو جب اس حادثے کی اطلاع دی گئی تو اس کے آنسو نکل آئے اور کہا: ’’ابن زیاد! تم پر اللہ کی لعنت ہو۔ اگر میں وہاں ہوتا تو چاہے میری اولاد ہی کیوں نہ کام آجاتی، میں حسین رضی اللہ عنہ کی جان بچا لیتا۔‘‘
یزید کا پورا کنبہ اہل بیت نبوی کا عزیز تھا۔ جیسے ہی عصمت ماب خواتینِ اہل بیت زنان خانے میں داخل ہوئیں ، یزید کے گھر میں کہرام مچ گیا اور تین دن تک سوگ برپا رہا۔ یزید علی بن حسین کو اپنے ساتھ دستر خوان پر کھانا کھلاتا تھا، اس نے مالی طور پر بھی اُنہیں خوب آسودہ کیا۔ جب اہل بیت کرام قدرے پرسکون ہوئے تو بڑے احترام و اہتمام اور حفاظت کے ساتھ مدینہ روانہ کیا۔ ان کے شریفانہ سلوک سے متاثر ہوکر فاطمہؓ اور زینبؓ نے اپنے زیور اتار کر اس کے پاس بطورِ ہدیہ بھیجے لیکن اس نے یہ کہہ کر واپس کردیئے کہ ہم نے تو صرف اپنا دینی فریضہ ادا کیا ہے۔