کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 82
پہنچنے کا خط لکھ دیا۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے اہل بیت سمیت کوفہ جانے کا ارادہ کرلیا۔ حضرات ابن عباس رضی اللہ عنہ اور ابن زبیر کو پتہ چلا تو اُنہوں نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو بہ اصرار روکا کہ عراقی قابل بھروسہ نہیں ، وہ غدار اور بے وفا ہیں ۔ آپ کے والد اور بھائی کے ساتھ اُنہوں نے غداری کی۔ آپ کو بھی وہاں بلا کر آپ سے علیحدہ ہوجائیں گے، ہمیں آپ کی جان کا ڈر ہے۔ دوسرے اُموی حکام سے بھی خطرہ ہے کہ وہ آپ سے بیعت لیے بغیر آپ کو چھوڑیں گے نہیں ۔ آپ عراقیوں سے کہیں کہ پہلے وہ اُموی حکام کو بے دخل کرکے فوج اپنے قبضے میں کریں ، پھر آپ کو بلائیں ۔ حاکم مدینہ اور حاکم مکہ دونوں نے آپ کو اپنے ہاں قیام کی دعوت دی کہ ہم آپ کا پورا تحفظ کریں گے۔ آپ عراق نہ جائیں مگر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے سب کی خیرخواہی اور پیشکش مسترد کردیں اور عراق کا قصد کرلیا۔
دوسری طرف عراق میں حالات یوں پلٹے کہ مسلم بن عقیل کے بارے میں مخبری ہوگئی اور حاکم کوفہ ابن زیاد سے ان کا ٹکراؤ ہوگیا اور توقع کے عین مطابق خطرہ دیکھتے ہوئے سارے کوفی چھٹ گئے اور مسلم کے ساتھ صرف ۳۰ لوگ باقی رہ گئے۔ آخر یہ ۳۰ بھی گھیرے میں آگئے۔ مسلم رضی اللہ عنہ بن عقیل شدید زخمی ہوئے اور وفات سے پہلے کسی قریبی شخص سے وعدہ لیا کہ میری وصیت سیدناحسین رضی اللہ عنہ تک پہنچا دینا کہ عراق ہرگز ہرگز نہ آئیں اور جہاں تک پہنچے ہیں ، وہیں سے واپس لوٹ جائیں اور میری موت کا بھی پیغام دے دینا۔
ادھر مکہ سے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سب کے روکنے کے باوجود عراق کے لیے اپنے ساتھیوں سمیت روانہ ہوچکے تھے کہ راستے میں اُنہیں مسلم بن عقیل کی موت اور ان کی وصیت کے پیغامات ملے تو اُنہوں نے واپسی کا ارادہ کرلیا۔مگر مسلم رضی اللہ عنہ بن عقیل کے بھائی کہنے لگے کہ ہم تو اپنے بھائی کے خون کا بدلہ لینے ضرور جائیں گے، چاہے ہماری جانیں چلی جائیں ۔ چنانچہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے بھی واپسی کا ارادہ جو بڑی مشکل سے بنا تھا، پھر تبدیل کردیا اور آگے کو روانہ ہوگئے۔ کوفہ میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوری مخبری ہورہی تھی۔ ابن زیاد نے ایک ہزار لشکر حر بن یزید کی سرکردگی میں بھیجا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کو راستے میں مل کر اِن سے بیعت لو یا اُنہیں گھیر کر میرے پاس واپس لے آؤ۔ کچھ دنوں بعد ہی ایک دوسرا لشکر جو چار ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھا۔ عمرو بن سعد