کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 80
(4)اس مہینے کی چوتھی اہمیت یہ ہے کہ حدیث ِمبارکہ میں اسے ’شهر الله‘ کہا گیا ہے اور رمضان کے بعد سب سے افضل محرم الحرام کو قرار دیا گیا ہے۔ اس مہینے کی دس تاریخ کو ’عاشورہ محرم‘ کو کہا جاتا ہے۔ عاشورۂ محرم کے دن روزہ رکھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مسلسل سنتِ مبارکہ ہے یعنی یہ روزہ آپ مکہ میں بھی رکھتے تھے۔ جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو اس روزے کے رکھنے یا نہ رکھنے کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اختیار دے دیا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ گئے تو وہاں یہودیوں کو عاشورہ محرم کا روزہ رکھتے پایا۔ استفسار پر اُنہوں نے بتایا کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون کی قید سے نجا ت دلائی تھی۔ یہ ہمارے لیے خوشی کا دن ہے اور بطورِ شکرانہ ہم اس دن روزہ رکھتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام کے (شریکِ مسّرت ہونے میں ) ہم تم سے زیادہ مستحق ہیں ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا حکم دیا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل کتاب کی مشابہت سے بچنے کا حکم دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس محرم کے ساتھ مزید ایک روزہ رکھنے کا ارادہ ظاہر فرمایا اور مختلف روایات کو جمع کرتے ہوئے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ روزہ ۹ محرم کا ہے۔ چنانچہ اب مسلمانوں کے ہاں ۹ اور۱۰ محرم کو روزہ رکھا جاتا ہے۔
(5)اس مہینے کی پانچویں اہمیت یہ ہے کہ اسلامی تاریخ کا دردناک اور تکلیف دہ واقعہ’واقعۂ کربلا‘ اسی مہینے کی ۱۰ تاریخ کو پیش آیا۔ جس میں نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور بیشتر اہل بیت عظام شہید ہوگئے۔ ستم یہ کہ اُن کو شہید کرنے والے بھی مسلمان ہی کہلاتے تھے۔ چونکہ محرم الحرام کی تمام اہمیتوں سے قطع نظر ، اب محرم کی ساری اہمیت اسی واقعہ فاجعہ کے حوالے سے اُمت میں باقی رہ گئی ہے، اس لیے اس پر ذرا تفصیل سے گفتگو کی ضرورت ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافتِ راشدہ مسلمانوں کی تاریخ کا بے مثال اور سنہرا دور ہے۔ اس دور میں مسلمانوں کو عظیم فتوحات حاصل ہوئیں۔مشرق و مغرب تک اسلامی سلطنت کا دائرہ وسیع ہوا۔ مسلمانوں نے صرف ملک ہی فتح نہیں کئے بلکہ اپنے اخلاقِ فاضلہ اور بے نظیر عدل و انصاف سے مفتوحہ عوام کے دل و دماغ بھی فتح کئے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان ہی مفتوحہ ممالک میں بہت سے حاسدین بھی پیدا ہوگئے جن کو مسلمانوں کا عروج، اتحاد و یگانگت ایک آنکھ نہیں بھاتا