کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 8
نہیں دی گئی۔اس سے ایک طرف حکومت کےمنافقانہ کردارکا پتہ چلتا ہے تو دوسری طرف اس اعتراض کی حقیقت بھی کھل جاتی ہے کہ یہ قانون اقلیتوں کے خلاف بنایا گیا ہے۔
دیگر ممالک میں قانونِ توہین رسالت کے مماثل قوانین
کہا جاتا ہے کہ اس قانون سے پاکستانی میں مذہبی انتہاپسندی میں اضافہ ہوتا ہے اور دنیا بھر میں پاکستان کا تشخص ایک کٹر اور شد ت پسند ملک کے طورپر نمایاں ہوتا ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہےکہ پاکستان میں توہین رسالت کے قانون کو بلاوجہ مطعون اور پاکستان کے مذہبی اقدامات کے بارے غیرمعمولی حساسیت کا مظاہرہ بلاوجہ ہی کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے قانون میں صرف مسلمانوں کے نبی آخر الزمان کو ہی یہ تحفظ وتقدس حاصل نہیں بلکہ تمام انبیا اور جملہ اَدیان کو یہاں قابل سزا جرم [1]قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان میں مذہبی جذبات کے احترام کا یہ تحفظ صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ عیسائیوں کو بھی حاصل ہے، اس کے بعد اس الزام کی بھی کیا حیثیت رہ جاتی ہے کہ یہ قانون اقلیتوں کے خلاف یا مذہبی امتیاز پر مبنی ہے۔دفعہ 295سی کے الفاظ ملاحظہ فرمائیے:
دفعہ295 (ج): ’’پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے توہین آمیز الفاظ وغیرہ استعمال کرنا: ’’جو کوئی الفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہوں یا تحریری یا نقوش کے ذریعے، یا کسی تہمت، کنایہ یا در پردہ تعریض کے ذریعے بلاواسطہ یا بالواسطہ رسول پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک نام کی توہین کرے گا تو اسے موت کی سزا دی جائے گی اور وہ جرمانے کی سزا کا بھی مستوجب ہوگا۔‘‘
٭ اسلام کا قانونِ توہین رسالت تو کائنات کی عظیم الشان ہستی کی ذات کے تقدس کے بارے میں ہے جس کی عظیم الشان خدمات کی مثال انسانی تاریخ کسی بھی حوالے سے پیش کرنے سے قاصرہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہمہ جہتی عظمت کا اعتراف مسلمانوں سمیت غیر مسلموں نے بھی کیا ہے۔ جبکہ دیگر ممالک میں ایسا ہی تحفظ ان کے ایسے حکمرانوں کو حاصل
[1] مجموعہ تعزیراتِ پاکستان: دفعہ 295،295 الف، 298