کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 78
حدیث کے جید فقہا اور علماء کا اتفاق ہے بلکہ یہ قانون پاکستان کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور شدہ ہے۔ ۲ جون ۱۹۹۲ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی سے یہ قرارداد منظور ہوئی کہ توہین رسالت کی سزا موت ہونی چاہئے۔ اس سے قبل وفاقی شرعی عدالت حکومت کو حکم دے چکی تھی کہ توہین رسالت کی سزا عمر قید کی بجائے موت مقرر کی جائے۔ قومی اسمبلی میں اس معاملے پر بھرپور بحث ہوئی جس کے بعد ۲۹۵سی کی منظوری ہوئی۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ قانون جنرل ضیاء الحق کے دور میں لایا گیا تھا، اس لیے اس قانون کو ختم کردیا جائے۔ یہ بڑی عجیب منطق ہے جنرل ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ کا رکن یوسف رضا گیلانی پیپلزپارٹی کی حکومت کا وزیراعظم بن جائے تو قبول لیکن وہی جنرل ضیاء الحق توہین رسالت کا قانون لائے تو قبول نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ توہین رسالت کے قانون کی تشکیل کے لیے آئینی تحریک قیام پاکستان سے کئی سال قبل مولانا محمد علی جوہر رحمہ اللہ نے شروع کی تھی جب لاہور ہائی کورٹ کے جج کنور دلیپ سنگھ نے ایک قابل مذمت کتاب ’’رنگیلا رسول‘‘ کے ناشر راج پال کو محض یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ اس کی کتاب مروّجہ قانون کی کسی دفعہ کی خلاف ورزی کے زمرے میں نہیں آتی۔ مولانا محمد علی جوہر نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ قصور جج کا نہیں ، قانون کا ہے اور یوں توہین رسالت کے لیے قانون سازی کا مطالبہ ۱۹۲۷ء میں شرو ع ہوا۔ دو سال کے بعد ۱۹۲۹ء میں ایک مسلمان نوجوان غازی علم دین شہید نے راج پال کو لاہور میں قتل کردیا۔ غازی علم دین کو سزائے موت دی گئی تو علامہ اقبال رحمہ اللہ نے ان کی رہائی کے لیے قائداعظم رحمہ اللہ کووکالت پر آمادہ کیا۔ غازی علم دین کی پھانسی کے بعد علامہ اقبال رحمہ اللہ نے ان کے جنازے میں شہید کو خراجِ تحسین پیش کیا۔
یاد رہے کہ غازی علم دین شہید کے جنازے میں میت کے لیے چارپائی کا بندوبست سلمان تاثیر کے والد ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر نے کیا تھا۔ اگر برصغیر میں توہین رسالت کا قانون موجود ہوتا تو غازی علم دین کی طرف سے راج پال کو قتل نہ کیا جاتا۔ توہین رسالت سے فساد پھیلتا ہے، توہین رسالت کے قانون پر صحیح عمل درآمد سے فساد کے تمام راستے مسدود کئے جاسکتے ہیں ۔اگر کوئی اس قانون کو بدلنے کی کوشش کرے گا تووہ پاکستان میں فساد پھیلانے کا باعث بنے گا ، لہٰذا آسیہ بی بی کے نام پر اس قانون کو ٹارگٹ نہ کیا جائے۔ آسیہ بی بی اگر واقعی بے گناہ ہے تو اس کی رہائی کے لیے اعلیٰ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے۔ اس سلسلے میں میڈیا کو بہت ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے اور جس کسی نے بھی زیادتی کی ہے اسے بے نقاب کرنا چاہئے۔ (روزنامہ جنگ، لاہور: ۲۵ نومبر)