کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 77
ہے جس پر مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کا اتفاق ہے۔پوپ بینیڈیکٹ کی طرف سے آسیہ بی بی کے رہائی کے مطالبے کے بعد کئی پاکستانی علما اس معاملے کا عافیہ صدیقی کے معاملے کے ساتھ تقابلی جائزہ لے رہے ہیں اور یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ جن عناصر کو آسیہ بی بی کے ساتھ ناانصافی نظر آرہی ہے، وہ عافیہ صدیقی کے معاملے میں خاموش کیوں رہتے ہیں ؟ بہتر ہوتا کہ آسیہ بی بی کے معاملے کو سیاسی رنگ دینے کی بجائے اسے افہام وتفہیم سے حل کیا جاتا۔ یہ درست ہے کہ ماضی میں کئی افراد کی طرف سے ۲۹۵سی کا غلط استعمال کیا گیا لیکن یہ غلط استعمال صرف مسیحیوں کے خلاف نہیں کیا گیابلکہ مسلمانوں کے خلاف بھی ہوا۔بالکل اسی طرح جیسے کئی مرتبہ دفعہ۳۰۲ میں بے گناہ افراد پر قتل کا الزام عائد کردیا جاتا ہے، اسی طرح ۲۹۵سی میں بھی بے گناہ افراد پر توہین رسالت کا غلط الزام عائد کرنے کی مثالیں موجود ہیں ۔ پچھلے ۲۰ سالوں کے دوران توہین رسالت اور توہین قرآن کے الزام میں ۷۰۰ سے زائد مقدمات درج ہوچکے ہیں جن میں سے نصف سے زیادہ مقدمات مسلمانوں کے خلاف درج کرائے گئے ہیں ،لہٰذا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کہ ۲۹۵سی کا نشانہ صرف غیر مسلم بنتے ہیں ۔ قانون میں کوئی خامی نہیں ہے البتہ قانون کے غلط استعمال کو روکنے کی ضرورت ہے۔ توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگانے والے کے لیے بھی سخت سزا قانون میں موجود ہے۔ جن افراد نے ماضی میں جھوٹے الزامات لگائے اگر ان کے خلاف کارروائی کی جاتی تو ۲۹۵سی کا غلط استعمال نہ ہوتا۔ اگر شہبازبھٹی اور سلمان تاثیر اپنی دانست میں آسیہ بی بی کو بے گناہ سمجھتے ہیں تو ان کے پاس دو مناسب راستے موجود تھے۔ اوّل یہ کہ وہ کسی اچھے وکیل کا انتظام کرتے اور آسیہ بی بی کے خلاف سزا کو ہائی کورٹ میں چیلنج کردیتے۔ ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ ہائی کورٹ نے توہین رسالت کے ملزمان کو رہا کردیا، کیونکہ ان پر الزام ثابت نہ ہوسکا۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ پنجاب حکومت سمیت ملک کی اہم دینی جماعتوں کی قیادت اور جید علما کو اعتماد میں لے کر ایک مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جاتی اور کمیٹی کو یہ اختیار دیا جاتا کہ آسیہ بی بی کے بے قصور ثابت ہونے کی صورت میں صدر آصف علی زرداری سے اس کی سزا معاف کرنے کی سفارش کی جاتی۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ شہبازبھٹی اور سلمان تاثیر نے جو کچھ بھی کیا، اس میں اصل مقصد آسیہ بی بی کو بچانا نہیں بلکہ ۲۹۵سی کو اُڑانا نظر آتا ہے۔ ۲۹۵سی کے تحت توہین رسالت کی سزا موت پر نہ صرف بریلوی، دیوبندی، اہل تشیع اور اہل