کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 76
حقائق و وقائع حامد میر
آسیہ مسیح اور قانونِ توہین رسالت
آسیہ بی بی کا تعلق ننکانہ صاحب کے نواحی علاقے اِٹانوالی سے ہے۔ پانچ بچوں کی ۴۵ سالہ ماں آسیہ بی بی کو مقامی سیشن عدالت سے توہین رسالت کے الزام میں موت کی سزا سنائی جاچکی ہے۔ آسیہ بی بی پر الزام ہے کہ اس نے گذشتہ سال کئی افراد کی موجودگی میں توہین رسالت کی، جس کے بعد اسے پولیس کے حوالے کیا گیا۔پولیس نے تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۲۹۵۔سی کے تحت اس کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ اس مقدمے کی تفتیش ایس پی انویسٹی گیشن شیخوپورہ محمد امین شاہ بخاری نے کی اور ان کا کہنا ہے کہ دورانِ تفتیش آسیہ بی بی نے مسیحی برادری کے اہم افراد کی موجودگی میں اعتراف ِجرم کیا اور کہا کہ اس سے غلطی ہوگئی ہے، لہٰذا اسے معاف کردیا جائے۔ آسیہ بی بی کا کہنا تھا کہ گذشتہ سال کچھ مسلمان خواتین نے اس کے سامنے کہا کہ قربانی کا گوشت مسیحیوں کے لیے حرام ہوتا ہے جس پر غصے میں آکر اس نے کچھ گستاخانہ کلمات کہہ ڈالے جس پر وہ معافی مانگتی ہے۔ آسیہ بی بی نے اپنے خلاف مقدمے کے مدعی قاری سالم سے بھی معافی مانگی، لیکن اس کا موقف یہ تھا کہ توہین رسالت کے ملزم کو معافی نہیں مل سکتی۔
ایڈیشنل سیشن جج ننکانہ صاحب نوید اقبال نے گواہوں کے بیانات اور واقعاتی شہادتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ۸ نومبر۲۰۱۰ء کو آسیہ مسیح کے لیے سزائے موت اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا کا اعلان کیا۔ اس سزا کے بعد وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی نے آسیہ بی بی کوبے گناہ قرار دیا اور ساتھ ہی تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۲۹۵سی کو بھی ظالمانہ قرار دے دیا۔
کچھ دنوں بعد گورنر پنجاب سلمان تاثیر شیخوپورہ جیل پہنچ گئے۔ اُنہوں نے بھی آسیہ بی بی کو بے گناہ قرار دیا اور کہا کہ وہ آسیہ بی بی کو صدر آصف علی زرداری سے معافی دلوا دیں گے۔ سلمان تاثیر نے بھی ۲۹۵سی پر تنقید کی۔ جس کے بعد آسیہ بی بی پس منظر میں چلی گئی اور ۲۹۵سی پربحث شروع ہوچکی ہے۔ یہ بحث آسیہ بی بی کو مزید متنازع بنا رہی ہے کیونکہ یہ تاثر تقویت پکڑ رہا ہے کہ آسیہ بی بی کے نام پر ایک ایسے قانون کو بدلنے کی کوشش کی جارہی