کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 75
میں امن عامہ کے فساد کے خطرے کے پیش نظر علما اور سیاستدانوں کو ’حفاظتی نظر بندی‘ میں لے لیا جاتا ہے ،لیکن یہ امر تعجب کا باعث ہے کہ عاصمہ جہانگیر کی امن عامہ کو تباہ کرنے والی سرگرمیوں کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قانونِ توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کو ’فتنہ‘ قرار دینا کیا توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے۔ ۱۰ مئی ۱۹۹۸ء کے نوائے وقت میں مسلم لائرز فورم کے ارکان کا بیان شائع ہوا :’’توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون کی مخالفت پر غداری کا مقدمہ چل سکتا ہے، کیونکہ اعلیٰ عدالتیں توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون ۲۹۵۔ سی کو آئینی قرار دے چکی ہیں ۔‘‘ ۲۹۵۔ سی کا متن درج ذیل ہے، جسے قانون توہین رسالت کہا جاتاہے: ’’جو کوئی الفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہوں یا تحریری یا نقوش کے ذریعہ، یا کسی تہمت، کنایہ یا در پردہ تعریض کے ذریعے بلا واسطہ یا بالواسطہ رسول پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاک نام کی توہین کرے گا تو اسے موت کی سزا دی جائے گی اور وہ جرمانے کا بھی مستوجب ہوگا۔‘‘ (مجموعہ تعزیراتِ پاکستان) قانونِ توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ اس کی رو سے محض واضح توہین آمیز الفاظ کی ادائیگی ہی نہیں ،بلکہ ’کنایہ یا در پردہ تعریض کے ذریعے بالواسطہ‘ طور پر بھی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کسی قسم کی گستاخی سزا کی مستوجب ہے۔ عاصمہ جہانگیر جیسی فتنہ مجسم خاتون وکیل کاقانون توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کو ’فتنہ‘ قرار دینا ۲۹۵۔ سی کی رو سے قابل گرفت ہے۔ آخر کب تک اس مغربی صہیونی لابی کی ایجنٹ عورت کو مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کا شغل جاری رکھنے کی اجازت دی جاتی رہے گی؟ یہ سوال عاصمہ جہانگیر کے دل آزار بیانات سے زخم خوردہ و دل گرفتہ ہر مسلمان کی زبان پر ہے۔ حکومتِ پاکستان نے جس طرح ماضی میں جرات مندی سے بشپ جان جوزف کی خود کشی پر امریکی وزارتِ خارجہ کے رد عمل کو مسترد کر دیا، بالکل اسی جراتِ ایمانی سے مغرب کے تنخواہ دار ایجنٹوں کی سرکوبی کے لئے تادیبی اقدامات کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ تاکہ وہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرکے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو آئندہ مجروح نہ کر سکیں ۔نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کاہر سچا پیروکار عاصمہ جہانگیر جیسی گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم عورت کو پابند ِسلاسل دیکھنے کا متمنی ہے !