کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 74
بشپ جوزف کی موت کے بعد صدرِ مملکت، حکومتی وزرا، سیاستدانوں ، علما، قانون دانوں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے راہنمائوں کے قومی پریس میں شائع ہونے والے بیانات کے سرسری مطالعے سے بھی یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کا متفقہ واجتماعی مسئلہ ہے۔
عاصمہ جہانگیر اور ان کے حواری جس آسانی سے جھوٹ، غلط بیانی اور حقائق کو مسخ کرتے ہیں ، وہ اس ’طبقہ دانشوراں ‘ کا کلچر ہے۔ اُنہیں شرم دلانے کا فائدہ بظاہر کچھ نہیں ہے، کیونکہ ان کے شرم وحیا کے پیمانے مغرب سے مستعار ہیں ۔
٭ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عاصمہ جہانگیر ’مسلمانی‘ کا دعویٰ کرنے کے باوجود اسلام اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر کمربستہ کیوں ہے؟ اس کا جواب بالکل سادہ اور آسان ہے کہ وہ اسی طرح ’مسلمان‘ ہے جس طرح مرزا غلام احمد قادیانی کا ہر پیروکار اپنے آپ کو ’مسلمان‘ سمجھتا ہے۔ خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی قادیانیت کے مزاج میں داخل ہے۔ اس بات کی تائید ہمیں فرزند اقبال، ڈاکٹر جاوید اقبال کی تالیف ’زندہ رود‘ میں موجود حضرت علامہ اقبال کے اس قول سے بھی ہوتی ہے۔ حضرت علامہ رحمہ اللہ نے فرمایا تھا :
’’میرے شبہات نے اس تحریک (قادیانیت) کے خلاف مکمل بغاوت کرلی، جب میں نے اپنے کانوں سے اس تحریک کے ایک رکن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نازیبا زبان استعمال کرتے ہوئے سنا۔‘‘
٭ عاصمہ جہانگیر کی قابل اعتراض سرگرمیوں کا دائرہ کار وسیع ہوتا چلا جارہا ہے۔ عورتوں کے حقوق کے نام پر پاکستان کے خاندانی نظام پر پہلے ہی یہ کاری ضرب لگاچکی ہے۔ انسانی حقوق کے نام پر وہ پاکستان میں ایک عظیم فتنہ کی بنیادرکھ چکی ہے جس کا مظاہرہ حالیہ مسیحی اقلیت کے پرتشدد دنگا وفساد کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔ وہ شرمناک بے باکی سے جو منہ میں آتا ہے، بک دیتی ہے۔ اس کی زبان درازیوں کا سلسلہ حد انتہا کو چھو چکا ہے۔ اس کی جسارتوں کا اندازہ لگائیے کہ وہ ۹۷% مسلمان آبادی والی اسلامی نظریاتی مملکت میں توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون کو ’فتنہ‘ قرار دیتی ہے۔ ہر صاحب ِعقل ودانش اس شرانگیز بیان کی زہرناکی اور امن عامہ کے لئے اس کے موجب ِفساد ہونے کا اندازہ آسانی سے لگا سکتا ہے۔ اس ملک