کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 73
ہے۔ یہ محض ’۲۰ فیصد مولویوں ‘ کی حمایت کی بات نہیں ہے، مسلمانوں کے بچے بچے کے دل کی آواز ہے کہ توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتکب خبیث مجرموں کی سزا صرف موت ہے۔ اُنہیں یہ بھی اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ ’مولوی‘ کی مخالفت کی آڑ میں اسلام کے بنیادی عقائد کی اہانت کا ان کا دیرینہ، اشتراکی وقادیانی حربہ اب کارگر نہیں ہوگا ،کیونکہ رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے جان نثار اسلام سے ان کی دشمنی، ان کے خبث ِباطن اور باطل عزائم سے اب بخوبی آگاہ ہوچکے ہیں ۔ اب آپ کو اخلاقی جرا ت سے کام لینا ہوگا۔
پردوں میں چھپ کر وار کرنے سے آپ کے چہرے چھپ نہیں سکیں گے،جیسا کہ بیرسٹر خالد اسحق صاحب نے ’نیوز لائن‘ کے رپورٹر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’قائداعظم سیکولر نہیں تھے۔ اُن کو سیکولر کہنا محض پرلے درجے کی الزام تراشی ہے۔‘‘ (شمارہ فروری ۱۹۹۸ء)
٭ عاصمہ جہانگیر، آئی اے رحمن اور بعض مسیحی راہنما اپنے بیانات میں قانونِ توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کو فکر قائد اعظم کے منافی قرار دیتے ہیں ۔ ان نام نہاد ترقی پسند اور روشن خیال افراد کے نزدیک ’سیکولر ازم‘ کا جو مفہوم ہے، قائد اعظم کا اس سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ ان کی ’سیکولر ازم‘ توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے جواز ڈھونڈتی ہے،جبکہ قائد اعظم سچے محب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ وہ اپنی تمام مصروفیات کو چھوڑ کر شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدمہ کی پیروی کرنے کے لئے بمبئی سے لاہور خود تشریف لائے تھے۔ آج یہ فتنہ پرداز محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے تحفظ پر مبنی قانون کو ’فتنہ‘ قرار دیتے ہوئے نہیں جھجکتے۔ قائد اعظم کی محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عالم تھا کہ قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے اُنہوں نے لنکنز اِن (Lincon's Inn) کا انتخاب محض اس لئے کیا تھا کہ اس کے دروازے پر اسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی دیگر قانون دانوں کے درمیان لکھا گیا تھا۔
٭ عاصمہ جہانگیر اور آئی اے رحمن کا یہ دعویٰ بھی حقائق کا منہ چڑا رہا ہے کہ ’’توہین رسالت کی حمایت صرف ۲۰ فیصد مولوی کر رہے ہیں اور اکثریت اس کی حامی نہیں ۔‘‘ کاش اس دروغ گوئی سے پہلے وہ اس شریعت پٹیشن کو یک نظر دیکھ لیتی جو محمد اسمٰعیل قریشی ایڈووکیٹ نے وفاقی شرعی عدالت میں گزاری۔ اس درخواست پر ۷۸/ افراد کے دستخط موجود ہیں ،جن کی بھاری اکثریت سپریم کورٹ، ہائی کورٹ کے سابق جج صاحبان، معروف وکلا، سابق اٹارنی وایڈووکیٹ جنرلز پر ہی مشتمل ہے۔ اس فہرست میں مستند علما کی تعداد چھ سات ہے۔ آنجہانی