کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 71
بن رہے ہیں ۔‘‘ (روز نامہ خبریں ، لاہور: ۱۵/ مئی ۱۹۹۸ء ) عاصمہ جہانگیر اور انسانی حقوق کمیشن کے ڈائریکٹر آئی اے رحمن (قادیانی) نے ۱۸/ مئی ۱۹۹۸ء کو ’جائنٹ ایکشن کمیٹی فار پیپلز رائٹس‘ کے سیمینار میں تقریر کرتے ہوئے کہا : ’’توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق قانون کی دفعہ ۲۹۵۔سی مکمل طور پر غیر اسلامی ہے۔ صرف ۲۰ فیصد جاہل مولوی اس قانون کی حمایت کر رہے ہیں ، اکثریت توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم قانون کی حامی نہیں ۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے نظریات مکمل طور پر سیکولر تھے۔‘‘ (روزنامہ ’دن‘ : ۱۹/ مئی ۱۹۹۸ء) آئی اے رحمن مسلمہ طور پر قادیانی ہے اور عاصمہ جہانگیر کے قادیانی ہونے میں بہت کم لوگوں کو شک ہے۔ وہ اپنے ’مسلمان‘ ہونے کا دعو یٰ کرتی ہے، لیکن اس کا ہر قول وفعل اسلام کی مخالفت پر مبنی ہے۔ وہ ایک قادیانی کے نکاح میں ہے، اس پر نہ تو اسے کوئی شرمندگی ہے اور نہ ہی ایک غیر مسلم کی منکوحہ ہونے سے اس کے ’اسلام‘ پر فرق پڑتا ہے۔ مندرجہ بالا بیان ظاہر کرتا ہے کہ عاصمہ جہانگیر اور آئی اے رحمن نے بزعم خویش کسی دار الافتا کے مفتی صاحب کا روپ بھی دھار رکھا ہے۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ مقامِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے ناآشنا اور قرآن وسنت کے حروفِ ابجد سے قطعی طور پر نابلد، اسلام بیزار، اشتراکی ولادین افراد کی طرف سے نہایت اعتماد کے ساتھ یہ ’فتویٰ‘ داغا جارہا ہے کہ قانونِ توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ’’مکمل طور پر غیر اسلامی ہے۔‘‘ مسلمان نما اسلام دشمنوں کے فریب ودجل کا یہ بھی انداز دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ اپنی خواہشاتِ نفس پر مبنی اسلام سے متصادم نظریات کو ’عین اسلام‘ بنا کر پیش کرتے ہیں ۔ مقصود یہ ہوتا ہے کہ ناواقف عوام کو بے وقوف بنایا جائے اور اسلامی معاشرے میں اسلام کی کھلی مخالفت کے نتیجے میں درپیش آنے والے خطرات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھا جائے۔ برس ہا برس سے عاصمہ جہانگیر حدود آرڈیننس، امتناعِ قادیانیت آرڈیننس، قانونِ توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ، کو ’اسلام کے منافی‘ اور اپنے خود ساختہ ’آوارگی ٔ نسواں ‘ کو فروغ دینے والے ’نسوانی حقوق‘ کو ’اسلام کے عین مطابق‘ قرار دے کر رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش میں غلطاں رہی ہے۔ توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا بطورِ حد سزائے موت، کتاب وسنت اور سنت خلفاے راشدین وائمہ مطہرین، اجتہاد ائمہ فقہ اور علمائے امت کی متفقہ رائے کی رو سے ثابت ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور