کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 70
’’۲۹۵۔ سی اور کتنی جانیں لے گا۔ اقلیتوں کے خلاف اس امتیازی قانون کو ختم کیا جائے۔‘‘
(روزنامہ دن: ۹/مئی ۱۹۹۸ء)
بشپ جان جوزف کی خود کشی کے خلاف احتجاج کرنے والے مسیحی جلوس سے تقریر کرتے ہوئے عاصمہ جہانگیر نے ایوب مسیح کیس کی اپیل میں خود پیش ہونے کا اعلان کیا اور کہا کہ انسانی حقوق کی جہاں بھی پامالی ہوئی، وہاں پر احتجاج کے ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔
ساہیوال سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق، ’’توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے ملزم ایوب مسیح کے خلاف مقدمہ کی پیروی کے لئے عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ کے ذریعے محمد حنیف ڈوگر ایڈووکیٹ کو نامزد کیا گیا۔‘‘ (روزنامہ دن، ہفت روزہ ’تکبیر‘ ۲۱/ مئی ۱۹۹۸ء)
عاصمہ جہانگیر کے اصل عزائم کا پردہ چاک ہو چکا۔ اس کی انسانی حقوق کے ’چمپئن‘ ہونے کی حیثیت بھی مشکوک ہوگئی۔ قومی اخبارات اپنے اداریوں اور مضامین میں عاصمہ جہانگیر کے کردار کو کھل کر تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں ، چند سال قبل یہ صورتِ حال نہیں تھی۔ روزنامہ ’خبریں ‘ نے اپنے اداریے میں عاصمہ جہانگیر کے منفی کردار پر ان الفاظ میں تنقید کی:
’’بشپ جان جوزف کی مبینہ خود کشی کو بہانہ بنا کر عاصمہ جہانگیر اور مسیحی برادری کے بعض زعما توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون کے خلاف جو مہم چلا رہے ہیں ، وہ ایک سوچی سمجھی سکیم کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ انسانی حقوق کے نام پر غیر حکومتی ادارے بنانا اور پھر پاکستان، اسلام اور اسلامی قوانین کے خلاف دریدہ دہنی کے ذریعے امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک سے نقد امداد حاصل کرنا، ان تنظیموں اور افراد کا شیوہ ہے۔ فادر جوزف کی مبینہ خود کشی کو بھی کیش کرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔‘‘
’’عاصمہ جہانگیر کا یہ بیان کہ توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا قانون فتنوں کا باعث ہے، ان کی ذہنی روش اور فکر کا عکاس ہے۔ عاصمہ جہانگیر کی قبیل کی سبھی عورتوں کو اسلام بطورِ مذہب ہی (نعوذ باللہ) فتنہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ نام نہاد ترقی پسند عناصر امریکی ڈالروں کے لئے اسلام کو گالی دینے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ اگرچہ ان میں سے اکثر (بدقسمتی) سے مسلمان ماں باپ کی اولاد ہیں ۔
متعدد مسیحی راہنمائوں نے بھی فادر جوزف کی خود کشی کو مشکوک قرار دیا ہے، لیکن یہ طبقہ اُنہیں ’شہید‘ قرار دینے پر تلا ہوا ہے، ہماری عاصمہ جہانگیر اور دوسرے حضرات سے بھی گزارش ہے کہ وہ ذاتی مفادات کے لئے فتنہ وفساد پھیلانے کی کوشش نہ کریں ۔ حکومت کو بھی ایسے عناصر کا محاسبہ کرنا چاہئے جو مسلمانوں اور مسیحی برادری کے درمیان فساد پھیلانے کا موجب