کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 7
ہوئے۔ [1]
4. بلکہ حقیقت ِواقعہ تو یہ ہے کہ قانون توہین رسالت تو فاضل عدالت اور پارلیمنٹ کی متفقہ منظوری کا حاصل ہے، جبکہ اس کو غیر مؤثر کرنے کی باضابطہ ترمیم 2004ء ميں پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں ہوئی، جیسا کہ تفصیل آگے آرہی ہے۔
یہ اسلام کا ایک متفقہ شرعی تقاضا اور پاکستانی پارلیمنٹ کا منظور شدہ قانون ہے ، اس کے باوجود افسوس ناک امر یہ ہے کہ 18 سال سےاس قانون کے نفاذ کے باوجود آج تک کسی کو توہین رسالت کی سزا نہیں دی جاسکی جس کی ایک وجہ سیکولر عناصر کا یک طرفہ، بدترین پروپیگنڈا اورشدید عالمی دباؤ ہےتو دوسری طرف پاکستانی حکومتوں کی منافقت بھی ہے کہ اس قانون کے معاً بعد سے اس قانون میں ایسی ترامیم کردی گئیں جس سے قانون ناقابل عمل ہوگیا۔اب صورتِ حال یہ ہے کہ سیکولر قوتوں کے شدید پروپیگنڈہ کے نتیجے میں جو شخص بھی توہینِ رسالت کا ارتکاب کرتا ہے تو یہ اہانت اس کے لئے خصوصی ’اعزاز‘ کا سبب بن جاتی ہے۔جس طرح عاصمہ جہانگیر کی توہین رسالت کے بعد آج ہماری قوم نے عدلیہ کے ایک اعلیٰ منصب یعنی سپریم کورٹ بار کی صدارت کا اعزاز اُسے بخشا ہے اور اس کے لئے پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھرپور منصوبہ بندی اور لابنگ کی ہے، اسی طرح توہین رسالت کے دیگرمرتکبین کو عاصمہ جہانگیر کا انسانی حقوق کمیشن عالمی قوتوں کا تحفظ فراہم کرتا اور اُنہیں خصوصی پروٹوکول عطا کرواتا ہے۔ ماضی میں سلامت مسیح کا کیس ہو یا رحمت مسیح کا، شانتی نگر کا واقعہ ہو یا جوزف روبنسن کا ،ان واقعات میں آسیہ مسیح کے کیس کی طرح ملزمین کو ہمیشہ عالمی ہمدردی اور خصوصی اِعزاز ہی حاصل ہوا ہے۔
یاد رہے کہ ’نیشنل کمیشن برائے عدل وامن‘ کی رپورٹ کی رو سے پاکستان میں 1986 تا 2009ء تک کل 986 کیس سامنے آئے ہیں جن میں سے479 کا تعلق مسلمانوں سے اور صرف 119 کا تعلق عیسائیوں سے ہے۔ان تمام مقدمات میں کسی ایک کو بھی سزائے موت
[1] مزید تفصیل کیلئے: ’قانون توہین رسالت‘ از محمد اسمٰعیل قریشی: ص 155