کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 69
مقدمات تو مفت لڑتی ہیں اور کوئی فیس نہیں لیتیں ، لیکن اُنہیں باہر سے ’لمبے پیسے‘ مل جاتے ہیں ۔ اُنہوں نے کہا کہ فرانسس جوزف جیسے لوگ عاصمہ جہانگیر اور ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے پروردہ ہیں ۔ فرانسس جوزف جو نہایت غریب آدمی تھا، یہ YMCA لاہور میں ایک چپڑاسی کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ الیگزینڈر جان ملک نے اسے گاڑی اور پیسوں کے ناجائز استعمال کے سلسلے میں وہاں سے نکال دیا تھا اور آج وہ عاصمہ جہانگیر کی بدولت ۱۳/ لاکھ کی گاڑی میں پھر رہا ہے، اس نے اپنے بچوں کی شادی پر رائے ونڈ میں لاکھوں روپے خرچ کئے۔ ایسے بہت سے لوگ عاصمہ جہانگیر اور دوسرے لوگوں کے آلہ کار ہیں اور پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے سرگرم عمل ہیں ۔‘‘ (روزنامہ ’آزاد‘: ۱۱/مئی ۱۹۹۸ء) روزنامہ ’خبریں ‘ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق ،انہوں نے کہا کہ ’’وہ دفعہ ۲۹۵/ سی کے تحت دی جانے والی سزائوں کے بارے میں پریشان ہیں اور جلد ہی عاصمہ جہانگیر کے ذریعے اس سلسلے میں اعلیٰ عدالتوں میں درخواستیں دائر کریں گے ۔‘‘ روزنامہ جنگ کے صفحہ اوّل پر یہ خبر شائع ہوئی : ’’بشپ کی موت میں این جی اوز ملوث ہو سکتی ہیں ۔‘‘ (مؤرخہ ۱۲ مئی ۱۹۹۸ء ) ۱۳ /مئی ۱۹۹۸ء کے ’نوائے وقت‘ میں چیف بشپ کیتھ لیزی کا یہ بیان شائع ہوا : ’’بشپ جوزف کے قتل کے پیچھے امریکی ڈالر اور عاصمہ جہانگیر کے چہرے ہیں ۔‘ ‘ اسی دن ’خواتین محاذ عمل‘ جس کی کرتا دھرتا عاصمہ جہانگیر ہیں ، کی طرف سے اخبارات میں یہ پریس ریلیز شائع ہوا : ’’خواتین محاذ عمل نے توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا قانون فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور خاص طور پر اس کے آرٹیکل ۲۹۵۔ اے سے ڈی تک کو ختم کرنے پر زور دیا ہے، کیونکہ یہ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی چیئر پرسن عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ بشپ جان جوزف کی خود کشی سے پاکستان میں اقلیتوں میں پائی جانے والی بے چینی کی شدت کا اندازہ ہوتا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان میں بسنے والی غیر مسلم اقلیتوں کو اپنی حمایت کا یقین دلاتا ہے۔‘‘ آنجہانی بشپ جان جوزف کی آخری رسوم میں شریک عیسائیوں سے خطاب کرتے ہوئے عاصمہ جہانگیر نے یہ اشتعال انگیز بیان داغا :