کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 68
یونائیٹڈ کرسچین کے سربراہ جارج فیلکس کے نام خط میں پاکستانی وزیر اعظم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے تحریر کیا :
’’اگرچہ سلامت مسیح پر مذہبی توہین کا الزام برقرار ہے، مگر یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ وزیر اعظم بے نظیر کی ذاتی مداخلت کی بنا پر سلامت مسیح کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔‘‘
(روزنامہ جنگ ۹/ اگست ۱۹۹۴ء)
سلامت مسیح اور رحمت مسیح نے سزائے موت کے خلاف جب لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تو عاصمہ جہانگیر اور مغرب زدہ لابی نے ’پریس ٹرائیل‘ کا ہنگامہ برپا کر دیا۔ بقول مولانا زاہد الراشدی:
’’ہائی کورٹ میں جس تیز رفتاری کے ساتھ اپیل کے مراحل طے کئے گئے اور جو طریق کار اختیار کیا گیا ،اس کی روشنی میں ملزموں کی بریت، رہائی اور بیرونِ ملک روانگی پر کوئی تبصرہ کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔‘‘ ( مجلہ الشریعہ : جنوری ۱۹۹۶ء)
ایوب مسیح کیس، بشپ جان جوزف کی خود کشی اور عاصمہ جہانگیر کا کردار
سلامت مسیح کیس کے بعد پہلی مرتبہ عاصمہ جہانگیر کے مغربی مسیحی تنظیموں سے گہرے مراسم منظر عام پر آئے۔ اس مقدمہ میں مغربی ذرائع ابلاغ کی غیر معمولی دلچسپی نے عاصمہ جہانگیر کے لئے پاکستان میں مسیحی تنظیموں کے ساتھ اشتراکِ عمل کا راستہ ہموار کیا۔ اس نے بعض مسیحی راہنمائوں کو قانونِ توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تحریک چلانے پر آمادہ کیا۔ اب اس نے توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتکب مسیحی نوجوانوں کے مقدمات میں غیر معمولی دلچسپی لینا شروع کی۔ آنجہانی بشپ جان جوزف کی مبینہ خود کشی کے بعد بعض مسیحی گروہوں کی طرف سے پرتشدد مظاہروں کے پس پشت دیگر عناصر کے ساتھ ساتھ عاصمہ جہانگیر کا کردار خاصا اہم رہا ہے۔
۱۱/ مئی ۱۹۹۸ء کو چیف بشپ کیتھ نے اخباری انٹرویو میں عاصمہ جہانگیر کے منفی کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا :
’’چیف بشپ کیتھ نے دکھ کا اظہار کیا کہ عاصمہ جہانگیر جیسے انسانی حقوق کے علمبردار پاکستان میں مسلمانوں اورعیسائیوں کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں ۔ ایسے لوگ مسیحی افراد سمیت دیگر بشپ حضرات کو بھی غلط گائیڈ کرتے ہیں ۔ اُنہوں نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر پاکستان میں عیسائیوں کے