کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 67
تعلق قادیانی فرقے سے ہے، کی طرف سے ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ کو یہ بنی بنائی رپورٹیں ارسال کی جاتی ہیں اور جب یہ رپورٹیں لندن سے شائع ہوتی ہیں تو پاکستان میں قادیانی لابی انسانی حقوق کے نام پر ان کی بھرپور تشہیر کرتی ہے۔ پاکستانی حکومت پر بے جا دبائو کے قابل مذمت ہتھکنڈے شروع کر دئیے جاتے ہیں ۔ پاکستان انسانی حقوق کمیشن عملاً مغربی صہیونی لابی کی اسلام دشمن تنظیموں کے ذیلی ادارے کے طور پر کام کر رہا ہے۔ سلامت مسیح کیس اور عاصمہ جہانگیر نومبر ۱۹۹۳ء میں سیکولر مزاج پیپلز پارٹی کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کے بعد عاصمہ جہانگیر کی توہین رسالت کے قانون کے خلاف سرگرمیوں میں یکدم شدت پیدا ہوگئی۔ خاتون وزیر اعظم سے ذاتی مراسم کو اُس نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کرنا شروع کیا۔ ۱۹۹۴ء میں جب سلامت مسیح اور رحمت مسیح پر توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقدمہ قائم ہوا تو عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی اپنی روایت کے عین مطابق میدانِ عمل میں کود پڑیں اور بعض مسیحی راہنمائوں اور سیکولر صحافیوں کی جماعت کے تعاون سے اس مقدمے کو پاکستانی پریس میں تشہیر دی۔ یکطرفہ جارحانہ بیان بازی میں حقائق کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے بھی اس معمولی مسئلے کو غیر معمولی طور پر اُچھالا، اوروہ اودھم مچایا کہ کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ عاصمہ جہانگیر اور حناجیلانی مغربی ذرائع ابلاغ کی آنکھ کا تارا بنی ہوئی تھیں ۔ آئے دن ان کے انٹرویو اور بیانات سی این این، بی بی سی اور مغربی اخبارات کی زینت بن رہے تھے۔ عاصمہ جہانگیر نے قانونِ توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کو بار بار انسانی حقوق کے منافی اور فتنہ قرار دینے کا عمل جاری رکھا،لیکن اس کی اپنی اس فتنہ پردازی کا نوٹس کوئی نہیں لے رہا تھا۔اس کی مسرت آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی تھی، جب انہی دنوں پاکستان کی خاتون وزیر اعظم نے گوجرانوالہ میں ایک عوامی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے اس کے موقف کی تائید کرتے ہوئے قانونِ توہین رسالت کو انسانی حقوق سے متصادم قرار دیا۔ سلامت مسیح کو جرم ثابت ہونے پر ایڈیشنل سیشن جج گوجرانوالہ نے موت کی سزا سنائی، لیکن جلد ہی حکومت کی مداخلت پر اسے ضمانت پر رہائی ملی۔ برطانوی وزیر اعظم جان میجر کے مشیر فلپ جے پارہم نے جان میجر کی طرف سے پاکستان