کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 66
جس میں پاکستانی قادیانیوں کے انسانی حقوق کی پامالی پر مبنی بے بنیاد، من گھڑت اور شرانگیز واقعات کی داستانوں کا طویل تذکرہ اور پاکستانی حکومت سے احمدیوں کے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ شامل نہ ہو۔ ’ایمنسٹی انٹرنیشل‘ کی رپورٹوں کے گہرے مطالعے کے بعد یہ اندازہ کرنا زیادہ مشکل امر نہیں ہے کہ ان رپورٹوں کا اصل ماخذ ومصدر عاصمہ جہانگیر کی زیر سرکردگی کام کرنے والا ’انسانی حقوق کمیشن‘ ہے۔ انسانی حقوق کمیشن اور ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘کی رپورٹوں میں حیران کن حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔ ۱۹۹۴ء میں ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ کی رپورٹ کا ایک مفصل باب قادیانیوں کے بارے میں تھا، جس کا ترجمہ قادیانی رسالہ ’الفضل‘ نے اپنی یکم جولائی ۱۹۹۴ء کی اشاعت میں ’پاکستان میں جماعت ِاحمدیہ پر مظالم کے سلسلہ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹ ‘ کے عنوان سے شائع کیا۔ اس رپورٹ میں ۲۹۵۔ سی،۲۹۵۔بی اور ۲۹۵۔ سی کا مفصل ناقدانہ جائزہ لینے کے بعد حکومت ِپاکستان سے درج ذیل سفارشات کی گئی ہیں : ’’ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بارہا حکومتِ پاکستان سے احمدیوں کے انسانی حقوق کی پامالی کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ستمبر ۱۹۹۱ء میں ايمنسٹی نے ایک رپورٹ ’پاکستان میں احمدیوں کے انسانی حقوق کی پامالی‘ شائع کی، جس میں جماعتِ احمدیہ کے افراد پر اپنے مذہبی حقوق کی پر امن طور پر ادائیگی کے نتیجہ میں مقدمہ بازی کے جاری رہنے اور جیل کی سزائیں دینے پر تشویش کا اظہار کیا ہے : ’’ہمیں اس بات پر تشویش ہے کہ پاکستان میں نت نئی کڑی قانون سازی کی وجہ سے جماعتِ احمدیہ کے افراد کو محض اظہارِ رائے کی آزادی کے حق اورمذہبی آزادی کے حق کو استعمال کرنے کی وجہ سے گرفتار کیا جا سکتا اور پھانسی کی سزا دی جا سکتی ہے۔‘‘ اس رپورٹ کا یہ جملہ ملاحظہ کیجئے : ’’توہین رسالت یا بعض گروہوں کے مذہبی جذبات کے مجروح کرنے کی مقرر کردہ سزا میں تبدیلی کا اطلاق ہر اس شخص پر ہوتا ہے جس کے خلاف اس دفعہ کے تحت مقدمہ دائر کیا جاتا ہے۔ تاہم خاص طور پر جماعتِ احمدیہ کے افراد کئی سالوں سے اس قانون کی وجہ سے مصیبتیں سہہ رہے ہیں ۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن، جس کے اہم عہدیداروں کی اکثریت کا