کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 65
ویسے بھی مغربی صہیونی لابی اسلامی جمہوریہ پاکستان کو بدنام کرنے کے بہانوں کی تلاش میں رہتی ہے اور برطانوی استعمار کے ’ کاشت کردہ‘ قادیانی پودے کی حفاظت کے لئے اپنے وسائل کا بے دریغ استعمال کرنا فرضِ عین سمجھتی ہے۔ مغرب کی پاکستان دشمنی عاصمہ جہانگیر جیسے اسلام دشمن افراد کے لئے اپنے فریب کا جال بچھانے کوبے حد حوصلہ افزا ثابت ہوئی۔ ہیومن رائٹس کمیشن کاقیام ؛ قانونِ توہین رسالت کی مخالفت عاصمہ جہانگیر نے مغربی سرپرستوں کی آشیر باد کے ساتھ جسٹس درّاب پٹیل کے ساتھ مل کر ۱۹۸۷ء میں ’پاکستان انسانی حقوق کمیشن‘ کی داغ بیل ڈالی۔ قادیانی حقوق کا تحفظ اس کمیشن کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔۲۴/اپریل ۱۹۸۷ء کو عاصمہ جہانگیر نے انسانی حقوق کمیشن کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا : ’’کمیشن کو نہ صرف ۱۹۷۳ء کے آئین میں مندرجہ انسانی حقوق کی بازیابی کی جدوجہد کرنی ہے بلکہ پاکستان میں اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج کئے گئے انسانی حقوق کا آئیڈیل حاصل کرنا ہے۔ کمیشن کو بہت سے ایسے قوانین کو منسوخ کرانے کی کوشش بھی کرنا ہوگی جو یک طرفہ ہیں ۔ اُنہوں نے اس ضمن میں حدود آرڈیننس، قانونِ شہادت میں مرد وعورت کی حیثیت، غیر مسلموں کو مسلمانوں کی شہادت اور عورت کو مرد کی گواہی پر سزا، قادیانیوں اور احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے والا قانون، قانونِ توہین رسالت اور جداگانہ انتخابات جیسے قوانین کا ذکر کیا۔‘‘ (نوائے وقت: ۲۵/ اپریل ۱۹۸۷ء) ۱۹۸۶ء میں قانونِ توہین رسالت کے نفاذ کے بعد عاصمہ جہانگیر کی طرف سے شدید جذباتی ردّ عمل سامنے آیا ہے۔ اس قانون کو ختم کرانا اس کی زندگی کا اہم ترین نصبُ العین معلوم ہوتا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن کے انسانی و مادی ذرائع کو اس نے اس مقصد کے حصول میں بھرپور استعمال کیا ہے۔ کمیشن کی طرف سے جاری کی جانے والی سالانہ رپورٹوں کے علاوہ سیمینار، انٹرویو اور جلسے جلوسوں کے ذریعے اس نے اس قانون کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ اور مغرب میں انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں سے قریبی تعلقات استوار کرتے ہوئے ان اداروں کی طرف سے پاکستانی حکومت پر ۲۹۸ اور ۲۹۵۔ سی کو واپس لینے کے لئے دبائو ڈلوایا۔ ۱۹۸۷ء سے لے کر آج تک ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘کی ایک بھی سالانہ رپورٹ ایسی نہیں ہے