کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 64
ان کے علاوہ ممتاز وکلا نے بھی اس قرار داد پر اپنے دستخط ثبت کیے۔ جس کے بعد یہ قرارداد حکومت پاکستان، صوبائی حکومتوں اور اراکین قومی اسمبلی کو بھیجی گئی ۔
۲۹۵سی کی منظوری
قریشی صاحب مزید لکھتے ہیں :
’’عاصمہ جہانگیر کی اس قابل اعتراض تقریر کا نوٹس سب سے پہلے قومی اسمبلی میں اسلامی جذبہ سے سرشار خاتون ایم این اے محترمہ نثار فاطمہ نے لیا اور اُنہوں نے وہاں پوری قوت کے ساتھ آواز اٹھائی کہ عاصمہ جہانگیر کے ان توہین آمیز الفاظ کے خلاف حکومت فوری کاروائی کرے، لیکن چونکہ اس وقت قانون میں توہین رسالت کے جرم کی کوئی سزا مقرر نہیں تھی، اسی لیے اس کے خلاف کوئی مؤثر کاروائی نہ ہو سکی۔‘‘
فدایانِ رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی جدو جہد کے سامنے حکومت نے سر تسلیم خم کرتے ہوئے ۱۹۸۶ء میں تعزیراتِ پاکستان میں ترمیم کی۔ فوجداری قوانین میں ترمیمی ایکٹ پاس کیا گیا اور دفعہ ۲۹۵۔ سی کا اضافہ کیا گیا جو توہین ِرسالت کے جرم پر عمر قید یا موت کی سزا مقرر کرتا ہے۔ ۲۹۵۔ سی کتاب وسنت پر مبنی مسلمانوں کے مطالبہ کی حرف بہ حرف تکمیل نہیں تھا، کیونکہ اس میں توہین رسالت کے جرم کی واحد سزا، سزائے موت کے ساتھ ساتھ ’عمر قید‘ کو بھی بطورِ سزا شامل کیا گیا تھا۔ لہٰذا مسلمانوں کی طرف سے اس پر عدمِ اطمینان کا اظہار کیا گیا ۔
لیکن دشمنانِ دین مبین پر بالعموم اور عاصمہ جہانگیر پر بالخصوص حکومت کی طرف سے یہ نیم دلانہ قانون سازی بھی بے حد شاق گذری۔ قادیانی اُمت کے ذہین دماغوں نے اس قانون کے خلاف ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مذموم پراپیگنڈہ کے لئے جامع منصوبہ بندی کی اورقادیانی ذرائع ابلاغ نے اسے آزادئ مذہب اور آزادئ اظہارِ رائے کے بنیادی حقوق کے منافی ہونے کا واویلا کیا۔ امریکہ اور یورپ میں متحرک قادیانی تنظیموں نے اپنے مربی و سرپرست مغرب کو متاثر کرنے کے لئے اسے اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ڈکلریشن کی خلاف ورزی قرار دیا۔ مغرب کے مذہب بیزار طبقہ، جو ’انسانی حقوق‘ کے مغربی ’ورژن‘ کو گذشتہ چند عشروں سے اپنا ’دین ومذہب‘ سمجھے ہوئے ہے، پر اس بے بنیاد پراپیگنڈہ کا فوری اثر ہوا۔