کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 62
خاتون مقرر عاصمہ جیلانی نے شریعت بل کیخلاف تقریر کرتے ہوئے سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں غیر محتاط زبان استعمال کی۔
اس پر ایک مقامی وکیل نے احتجاج کیا اورکہا کہ رسولِ صلی اللہ علیہ وسلم خداکے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے۔جس پر دونوں کے درمیان تلخی ہو گئی اور جلسے کی فضا کشیدہ ہو گئی۔ عاصمہ جہانگیر نے اپنی تقریر میں ’تعلیم سے نابلد‘ اور ’ان پڑھ‘ کے الفاظ استعمال کیے تھے۔‘‘ (جسارت ،کراچی ۱۸/مئی ۱۹۸۴ء)
عاصمہ جہانگیر ا س وقت عاصمہ جیلانی کہلاتی تھی۔اس سیاہ بخت نے محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جان بوجھ کر وہی لفظ استعمال کیا جو یورپی مستشرقین اسلام او ر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیر اور اہانت کی غرض سے کرتے ہیں ۔جس سیمینار میں عاصمہ نے یہ الفاظ ادا کیے، وہ شریعت بل کی مخالفت میں ہو رہا تھاا ور ظاہر ہے ایسی مخالفانہ فضا میں ان الفاظ کی کوئی دوسری تاویل یا تعبیر نہیں کی جاسکتی۔ اور نہ ہی سیمینار کے حاضرین کے مطابق عاصمہ کی تقریر کاسیاق وسباق ایسا تھا جس میں اس کا کوئی اور مفہوم لیا جاسکتا ہو۔ اس سیمینار میں سب ’پڑھے لکھے‘ لوگ تھے افسوس کوئی ترکھان کا بیٹا غازی علم الدین شہید نہ تھا جو اس گستاخِ رسول زبان کو بند کرانے کے لیے عملی اقدام کر گزرتا۔
بہر حال عاصمہ کے الفاظ مسلمانوں کی سخت دل آزاری کا باعث بنے، جس پر سیمینار میں شدید ہنگامہ برپا ہوگیا۔ جس طرح ۱۹۲۷ء میں راج پال کے خلاف مسلمانوں کے جذبات کا لاوا بھڑک اُٹھا تھا ،بالکل اسی طرح اس بدبخت عورت کی دریدہ دہنی سے پاکستان کے مسلمانوں میں اضطراب اور غم وغصے کی لہر دوڑ گئی۔ راج پال تو ایک متعصّب ہندو تھا ،لیکن اب کی بار گستاخانہ جسارت کا ارتکاب ایک ایسی عورت کی طرف سے کیا گیا، تھا جو ایک قادیانی ہونے کے باوجود اپنے ’مسلمان‘کہلوانے پر مصر ہے۔ عاصمہ جہانگیر کے خلاف احتجاج بالآخر تعزیراتِ پاکستان میں ۲۹۵۔ سی کے اضافے پر منتج ہوا۔ جناب محمد اسمٰعیل قریشی نے اپنی معرکہ آراء تصنیف ’ناموسِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قانونِ توہین رسالت‘ میں اس واقعے کا پس منظراس طرح بیان کیا ہے:
’اس کے بعد ماہ مئی۱۹۸۶ء میں ایک خاتون ایڈووکیٹ عاصمہ جیلانی نے اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمینار میں تقریر کرتے ہوئے معلم انسانیت حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے