کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 61
زبانوں کو ہمیشہ کے لئے خاموش کرنے کی روایات کو زندہ رکھا۔ ۱۹۶۱ء میں ایک عیسائی مبلغ پادری سموئیل نے مغل پورہ ورکشاپ میں دورانِ تبلیغ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کچھ نازیبا الفاظ استعمال کیے، جس پر مشتعل ہوکر زاہد حسین نامی نوجوان نے اس گستاخ کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔۱۹۶۴ء میں عیسائی مشنری کی مشہور دکان ’پاکستان بائبل سوسائٹی‘ انار کلی نے ’اثمارِ شیریں ‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کی، جس میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں توہین آمیز مواد موجود تھا۔ مسلمان نوجوانوں کے ایک گروہ نے اس دکان کو آگ لگادی اور اس کے منیجر ہیکٹر گوہر مسیح پر قاتلانہ حملہ کیا، لیکن وہ بال بال بچ گیا۔ ۱۹۸۳ء میں مشتاق راج نامی ایڈووکیٹ، جس کے بارے میں مشہور تھا کہ قادیانی ہے، نے ’آفاقی اشتمالیت‘ کے نام سے کتاب تحریر کی۔ اس کتاب میں انبیاے کرام علیہم السلام کی ذواتِ مقدسہ کے خلاف ہرزہ سرائی کی گئی اور انتہا یہ کہ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں بھی گستاخانہ جسارت کی گئی تھی۔ ورلڈ ایسوسی ایشن آف مسلم جیورسٹس اور لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی قرار داد کے نتیجے میں حکومت نے اس کتاب کو ضبط کرنے کے احکامات جاری کئے۔ مشتاق راج کے خلاف توہین مذہب کے جرم میں زیر دفعہ ۲۹۵۔ الف تعزیراتِ پاکستان مقدمہ درج کر لیا گیا، کیونکہ تعزیراتِ پاکستان میں ’توہین ِرسالت‘ جیسے سنگین اور انتہائی دل آزار جرم کی کوئی سزا مقرر نہیں تھی۔ اسی لئے مشتاق راج کی گرفتاری عمل میں نہ آئی جس سے مسلمانوں میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ تمام اسلامی مکاتب ِ فکر کے علما اور ممتاز قانون دانوں نے کانفرنس منعقد کی جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ اسلام میں توہین رسالت کی سز ا ، سزائے موت مقرر کی جائے! مشتاق راج کی گستاخانہ جسارت کے خلاف مسلمانوں کے جذبات ابھی گرم ہی تھے کہ عاصمہ جہانگیر کی طرف سے ۱۷/مئی کو پیغمبر اسلام کی شان میں سخت بے ادبی کا مذموم واقعہ پیش آیا۔اس حیا باختہ عورت نے معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کو (اس کی منہ میں خاک)’اَن پڑھ‘ کہہ دیا۔ یہ ہفواتی بکواس عاصمہ نے افرنگ زدہ،آوارگی ٔ نسواں کی علمبردار عورتوں کے اسلام آباد میں منعقد کردہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کی۔ روزنامہ جسارت کی رپورٹ کے مطابق : ’خواتین محاذِ عمل اسلا م آباد کے ایک جلسے میں صورتِ حال اس وقت سنگین ہو گئی، جب ایک