کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 60
یہ محب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کا وہ عظیم قائد تھا جسے دنیا محمد علی جوہر رحمہ اللہ کے نام سے جانتی ہے۔ مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے احتجاج کے پیش نظر برطانوی حکومت نے قانون سازی پر آمادگی ظاہر کی۔ ۱۹۲۷ء میں مولانا محمد علی جوہر کی تحریک پر مسلمان اراکین مرکزی قانون ساز اسمبلی کی تائید سے تعزیراتِ ہند میں دفعہ ۲۹۵۔ الف کا اضافہ کیا گیا، جس کی رو سے مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین کی سزا دو سال مقرر کی گئی۔ (ناموسِ رسول: صفحہ ۴۱۳) اس دفعہ میں بھی واضح طور پر بانیانِ مذہب کی توہین کی بات شامل نہیں تھی۔ مسلمانوں نے اس پرعدمِ اطمینان کا اظہار کیا، کیونکہ ان کے نزدیک توہین ِرسالت ناقابل معافی جرم ہے، جس کی سزا صرف موت ہے !! ۱۹۴۷ء میں اسلام کے نام پر پاکستان قائم ہوا۔ لیکن کتاب وسنت کی روشنی میں توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کسی قسم کی قانون سازی نہ کی گئی۔ بے حد تعجب کی بات ہے کہ اسلامی مملکت پاکستان میں بھی اسلام دشمن عناصر کی ریشہ دوانیاں جاری رہیں ۔ سیکولر اور مذہب بیزار حکمرانوں نے ’رواداری اور وسعتِ ظرفی‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہرزہ سرائیوں پر مجرمانہ چشم پوشی کی۔ قیام پاکستان کے بعد مسلمانوں کی دل آزاری پر مبنی سرگرمیوں کا ارتکاب زیادہ تر قادیانی فرقے کی طرف سے کیا گیا۔ مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ قادیانیت کے خلاف تحریک میں حصہ لینے کے جرم میں سیدابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ اور مولانا عبد الستار نیازی کو وقت کے حکمرانوں نے سزائے موت دینے کا اعلان کیا۔ یہ بے حد ستم ظریفی ہے کہ ایک اقلیتی فرقے کے خلاف ’منافرت‘ پھیلانے کے جرم میں مسلمانوں کے عظیم راہنمائوں کو موت کی سزا سنائی گئی۔ لیکن ’محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم ‘کی توہین اور اُمت ِمسلمہ کی دل آزاری کے مرتکب افراد کو قرارِ واقعی سزا دینے کے لئے فرنگی سامراج کے قانون کو اسلامی شریعت کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔ تحفظِ ناموسِ رسالت کے متعلق شرعی سزا کے عدم نفاذ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شاتمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی گستاخیوں کا سلسلہ جاری رکھا اور شمع رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے پروانوں نے بھی ان کی ناپاک