کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 6
4. جسٹس عبادت یار خان سابق جج کراچی ہائی کورٹ 5. جسٹس ڈاکٹر فدا محمد خاں پی ایچ ڈی ،اسلامی قانون مذکورہ تاریخ تک حکومت نے مطلوبہ قانون سازی نہ کی جس کے نتیجے میں فاضل عدالت کا فیصلہ از خود نافذ ہوگیا۔ یہ نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کا پہلادور تھا اور حکومت سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل میں جانے کی تیاری کررہی تھی۔اسی دوران عوام کے پرزور مطالبے پر نواز حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا، اور حکومت نے اس سلسلے میں قومی اسمبلی میں بل پیش کردیا۔ اس موقع پر ناموسِ رسالت کے قائدین نے اس بل کو قومی اسمبلی میں پیش کرنے کو بے فائدہ قراردیتے ہوئے حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ اگر حکومت اس سے متفق ہے تو سپریم کورٹ میں اپیل کی پیروی نہ کرے،نتیجتاً یہ قانون خود ہی مطلوبہ ترمیم کے ساتھ نافذ ہوجائے گا۔ تاہم 2 جون 2010ء کو قومی اسمبلی میں یہ قانون زیر بحث آیا اور اسمبلی نے ’عمر قید‘ کی سزا کے خاتمے کو منظور کردیا اور 8 جولائی 1992ء کو پاکستان کی سینیٹ نے بھی اس بل کو اتفاقِ رائے سے منظور کیا۔ گویا توہین رسالت کا حالیہ قانون تین مختلف سمتوں سے ہونی والی کاوشوں کے نتیجے میں پاکستان کے مجموعہ تعزیرات کا حصہ بنا ہے: 1. جناب محمد اسمٰعیل قریشی کی 1984ء میں وفاقی شرعی عدالت کو دی جانے والی درخواست اور اس پر وفاقی شرعی عدالت کا 1990 کا فیصلہ (یہی اس قانون کا اصل محرک ہے) 2. قومی اسمبلی میں آپا نثار فاطمہ کا پیش کردہ بل اور اس کے نتیجے میں محدود قانون سازی 3. آخر کار جون1992ء میں پاکستانی پارلیمان میں سزاے عمر قید کے خاتمے کا بل پیش ہونا اوراس کا منظور ہوجانا، گو کہ اس آخری مرحلہ کی ضرورت نہ تھی، کیونکہ شرعی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں مقررہ تاریخ گزرجانے کے بعدقانون خود ہی تبدیل ہوچکا تھا، تاہم پارلیمان کی قانون سازی نے اس ترمیم کی مزید تائید کر دی۔ اب اس قانون کو دستور 1973ء میں دیے ہوئے حق کے استعمال یا قومی اسمبلی کی 1992ء میں منظوری کا نتیجہ قراردیا جاسکتا ہے، ظاہر ہے کہ یہ ہر دو اقدامات کسی آمر کے ذریعے حاصل نہیں