کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 59
کی صورت اختیار کرلی۔ ’مسلم کرانیکل‘نے اس فیصلہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا :
’’جج کنور دلیپ سنگھ نے قانون کی غلط تشریح کی ہے، ورنہ قانون میں اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ وہ راج پال جیسے دریدہ دہن، بے غیرت، گستاخ کا منہ بند کرے ،کیونکہ اس سے بڑھ کر مذہبی دل آزاری کی اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ اس سے دنیا کا اور بالخصوص برصغیر کا ہر مسلمان دل گرفتہ اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس پر کٹ مرنے کے لئے بے چین ہے۔ اگر عدالت نے اس فیصلہ پر نظر ثانی نہ کی تو کوئی مجاہد اُٹھ کھڑا ہوگا جو اس گستاخ کا سرقلم کر دے گا۔‘‘
بالآخر یہ سعادت غازی علم الدین شہید کے حصے میں آئی…!
مسلمانانِ بر صغیر پاک وہند دشمنانِ اسلام کی گستاخانہ جسارتوں اور توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات کے خلاف سراپا احتجاج اور دل گرفتہ تھے۔ ان کی طرف سے پر زور مطالبہ کیا جارہا تھا کہ تعزیراتِ ہند میں ’توہین ِرسالت‘ کی سزا کی دفعہ بھی شامل کی جائے۔ انہی دنوں لاہور کی شاہی مسجد میں ایک عظیم اجتماع ہوا، جس میں ایک محب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم مسلمان راہنما نے خطاب کرتے ہوئے کہا :
’’عزیزو! میں کوئی وکیل یا قانون دان نہیں ۔ قانون کے بارے میں جو کچھ بھی سیکھا ہے، وہ عدالت کے کٹہرے میں ملزم کی حیثیت سے کھڑے ہوکر سیکھا ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ آئندہ ایسے فتنوں کے سد ِباب کے لئے اس قانون ہی کو بدلوا دیں اور تعزیراتِ ہند میں ایک مستقل دفعہ کا اضافہ کر کے توہین بانیانِ مذہب کو جرم قرار دیا جائے۔ اب تک کوئی ایسی مستقل سزا آپ کے ملک کے قانون میں موجود نہیں جو اس ملک کے باشندوں کے فرقوں کی دل آزاری پر دی جا سکے۔ اس قانون کا مسودہ میں تیار کیے دیتا ہوں ۔ اسمبلی کے ممبر اس میں مناسب ترمیم کرکے ایوان میں پیش کریں اور منظور کرائیں ۔ اس طرح آقااور ہادی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھ دوسرے مذاہب کے محترم پیشوائوں کی شخصیتیں بھی بد زبانی اور بے لگام لکھنے والوں کے حملوں سے محفوظ ہو جائیں گی۔ علمی رنگ میں کسی مذہب یا تاریخی حیثیت سے کسی بانی ِ مذہب پر تنقید کرنا ایک الگ بات ہے، اس کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہنا چاہئے۔ لیکن کھلی توہین جو کسی مذہب کے بارے میں ہو، اسے آج ہندوستان کے قانون میں قطعی جرم قرار دے کر اس کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کرنا ہوگا۔‘‘