کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 58
توہین آمیز اور بے حد دل آزار کتاب کی اشاعت پر بر صغیر پاک وہند کے مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا تو ملعون راج پال کی اس گستاخانہ جسارت کے خلاف ردّ عمل کے نتیجے میں حکومت ہند نے تعزیراتِ ہند کی دفعہ ۲۹۵ میں ’۲۹۵/الف‘ کا اضافہ کیا ،جس کی رو سے کسی جماعت کے مذہب یا مذہبی جذبات کی بے حرمتی (تحریری یا زبانی( کے مرتکب مجرموں کے لئے دوسال تک کی سزا مقرر کی گئی۔ اس ترمیم یا اضافی دفعہ میں بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے مرتکب افراد کے لئے سزائے موت کو قانون کا حصہ بنانے کے دیرینہ مطالبے کو منظور نہ کیا گیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد بھی یہی قانون بر قرار رہا ۔ بالآخر ۱۷/مئی ۱۹۸۶ء کو خواتین محاذِ عمل کے سیمینار منعقدہ اسلام آباد میں عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ کی طرف سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ مبارکہ میں نازیبا الفاظ کے استعمال نے مسلمانوں کے بر انگیختہ جذبات کو شعلہ جوالہ کا روپ عطا کردیا۔ تحفظ ِناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک نے ایک دفعہ پھر زور پکڑا۔ بالآخر ۱۹۸۶ء میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۲۹۵۔ سی کا اضافہ کیا گیا جس کے تحت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نامِ اقدس کی توہین کے مرتکب مجرموں کے لئے سزائے موت یا عمر قید کی سزا مقرر کی گئی۔ راج پال سے عاصمہ جہانگیر تک ۱۹۲۷ء کی بات ہے، دریدہ دہن، بدبخت متعصب ہندو راج پال جس نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مذکورہ بالا بے حد اہانت آمیز کتاب شائع کی تھی، اسے لاہور کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے جرم میں چھ ماہ قید کی سزا دی۔ اس کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس کنور دلیپ سنگھ نے راج پال ملزم کو بری کرتے ہوئے تحریر کیاکہ ’’کتاب کی عبارت کتنی ہی نا خوشگوار کیوں نہ ہو، اس سے بہرحال کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔‘‘ اس فیصلہ نے مسلمانوں کی آتش ِغضب کو اور بھڑکادیا۔ مسلمانوں کے احتجاج نے تحریک