کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 57
تحقیق وتنقید محمد عطاء اللہ صدیقی
قانونِ توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور عاصمہ جہانگیر کا کردار
ملک میں اِن دنون قانون توہین رسالت کا چرچا ہے، 31دسمبر کو ملک بھر کے کاروباری مراکز میں اسی سلسلے میں ہڑتال بھی کی گئی ہے۔ اس قانون کا پس منظر کیا ہے اور کون لوگ اس قانون کو ختم کرنا چاہتے ہیں ؟ اس موضوع پر آج سے چند برس قبل لکھا جانے والا ایک ایمان افروز اور دینی غیرت وحمیت سے بھرپور غیر مطبوعہ مضمون ادارہ محدث کے ریکارڈ میں سامنے آیا۔ فاضل مضمون نگار نے تازہ حالات میں اس موضوع پر کئی مضامین لکھنا شروع کئے لیکن خرابی صحت کی بنا پر کسی ایک کو بھی مکمل نہ کرسکے۔ زیر نظر مضمون سپریم کورٹ بار کی موجودہ صدر عاصمہ جہانگیر کے مذموم کردار کے حوالے سے ہے۔ نا معلوم اس اہم منصب پر فائز ہونےکے بعد ان مہینوں میں توہین رسالت کے قانون کے خلاف منصوبہ بندی میں کن کن مزید کرداروں کا بھی ہاتھ شامل ہوچکا ہو؟ بہرحال یہ مضمون اپنے موضوع پر نادر معلومات اور ایمان پرور جذبات کا بے مثال اظہار ہے۔ ح م
تعزیراتِ ہند میں ’۲۹۵/ الف‘ کا اضافہ اگر راج پال کی گستاخانہ حرکت کا نتیجہ تھا، تو تعزیراتِ پاکستان میں ’۲۹۵/سی‘ کا ظہور راج پال کی فکری اولاد عاصمہ جہانگیر کی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں دریدہ د ہنی کی وجہ سے ہوا۔ ان دونوں دفعات کے قانون کا حصہ بننے کے عمل میں ۵۹ برس حائل ہیں ، لیکن ان کے پس منظر میں حیران کن حد تک مماثلت ہے۔ تفصیل اس اجمال کی حسب ِذیل ہے …
تعزیراتِ ہند ۱۸۶۰ء کی ’دفعہ ۲۹۵‘ کی رو سے کسی بھی جماعت کی عبادت گاہ کی تذلیل کے مرتکب افراد کو دو سال تک قید کی سزا دی جاسکتی تھی۔ اس دفعہ میں کسی جماعت کے مذہبی جذبات واعتقادات اور بانیانِ مذہب کی توہین کے متعلق وضاحت کے ساتھ ذکر موجود نہیں تھا۔ اس اِبہام سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے والے اور بانیانِ مذاہب کی توہین کے مرتکب افراد قانونی موشگافیوں کی بنا پر عدالتوں سے بری ہوجاتے تھے۔ ۱۹۲۷ء میں بد بخت ہندو ناشر راج پال کی طرف سے ’رنگیلا رسول‘ کے عنوان سے نہایت گھٹیا،