کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 53
ہیں ۔اور اگر میں اپنی اُمت پربھاری نہ سمجھتا تومیں ان کو اس وقت نماز پڑھاتا ۔ پھر آپ نے مؤذن کو حکم دیا، اس نے اقامت کہی اور آپ نے نماز پڑھائی۔‘‘ ٭ مندرجہ بالا روایات سے معلوم ہوا کہ عشا کی نماز تاخیر سے پڑھنا افضل ہے جبکہ باقی نمازوں کا اپنے اوّل وقت میں پڑھنا ہی افضل ہے جیسا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل عمل کے متعلق پوچھا تو فرمایا: (الصلاة في أوّل وقتها) ’’اول وقت میں نماز پڑھنا‘‘ (صحیح ابن خزیمہ:۳۲۷،الموارد:۲۸۰) عصرکا وقت معلوم کرنے کا طریقہ نمازوں کے اوقات کے لئے سایے کی پیمائش میں عام لوگ عموماً غلطی کھا جاتے ہیں ۔ اس سلسلے میں یاد رہے کہ سائے کی پیمائش میں زوال کا اصل سایہ شامل نہیں کیا جائے گا، جو مختلف علاقوں کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔ سائے کی پیمائش کے دو طریقے ہیں : پہلا طریقہ: ایک لکڑی لے کرزوال سے تھوڑی دیر پہلے سپاٹ زمین پر گاڑ دیں ۔ سایہ گھٹ رہا ہوگا،گھٹتے گھٹتے جب ایک جگہ رک جائے(جس کے کچھ دیر بعد سایہ بڑھنا شروع ہوگا) تو یہی زوال کا وقت ہے جو چند ثانیے تک رہتا ہے۔ یہاں رکے ہوئے سایہ کی پیمائش کرلیں ۔ پھرجب سایہ لکڑی کے برابر ہوجائے تو پیمائش کئے ہوئے فاصلے کو لکڑی کے برابر آئے ہوئے سایہ سے ملا کر نشان لگا لیں ، اب جب سایہ اس نشان پر پہنچے گا تو یہ ظہر کا آخری اور عصر کا اوّل وقت ہوگا اور ایک مثل ہوگا۔ دوسرا طریقہ : لکڑی کو گاڑ دیا جائے اور زوال کا سایہ جب رُک جائے تو اس لکڑی کو نکال کر سایہ کی اِنتہا پر گاڑ دیا جائے ۔ پھر جب سایہ بڑھنا شروع ہو اور لکڑی کے مثل ہوجائے تو یہی عصر کا اوّل وقت ہے۔