کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 51
صلی العشاء الآخرة حين ذهب ثلث الليل،ثم صلی الصبح حين أسفرت الأرض ثم التفت إليّ جبريل فقال: يا محمد! هذا وقت الأنبياء من قبلک والوقت فيما بين هذين الوقتين‘‘ (سنن ترمذی :۱۴۹)
’’پس اُنہوں نے ظہر کی نماز پہلی مرتبہ جب زوالِ فئ کا سایہ جوتے کے تسمے کے برابر ہوا تب پڑھائی۔ پھر عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے مساوی ہوگیا۔ پھر مغرب کی اس وقت جب سورج غروب ہوگیا اور روزہ دار نے روزہ کھول لیا۔ پھر شفق (سرخی) ختم ہونے پر عشا کی نماز پڑھائی، پھر عشا کی نماز اس وقت پڑھائی جب پو پھوٹ پڑی اور صائم پر کھانا پینا حرام ہوجاتا ہے۔ اور دوسری مرتبہ ظہر کی نماز اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہوگیا۔ پھر عصر کی نمازجب ہر چیز کا سایہ دو مثل ہوا پڑھائی، پھر مغرب کی نماز اس کے اوّل وقت میں پڑھائی، پھر عشا کی نماز ثلث ِلیل کو پڑھی۔ پھر فجر کی نماز جب زمین روشن ہوگئی اس وقت پڑھی، پھر جبریل علیہ السلام نے میری طرف توجہ کی اور بولے: اے محمد! یہ اوقات تجھ سے پہلے انبیا میں تھے اور (نماز) کا وقت ان دو اوقات کے درمیان میں ہے۔‘‘
حاصل نکات
نماز اول وقت آخر وقت
(1)ظہر زوال کے فورا بعد ہرچیز کا سایہ ایک مثل ہو
(2)عصر ایک مثل سایہ ہو دو مثل سایہ ہو یاسورج زرد ہونے تک
(3)مغرب سورج غروب سرخی غائب ہونے تک
(4)عشاء سرخی غائب ہونے سے نصف یا ثلث لیل تک
(5)فجر طلوع فجر سورج طلوع تک
(6)جمعہ ظہر کا وقت ہی ہے
سفر میں ظہر کی نماز ٹھنڈا کرکے پڑھنا
سیدنا ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر پر تھے کہ