کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 5
خلافِ اسلام دفعات کی نشاندہی کرکےان کو اسلام کے مطابق تبدیل کرا سکتے ہیں ۔بھٹو کے زیر نگرانی تیار کردہ اس دستور کے دیے ہوئے حق کو استعما ل کرتے ہوئے مجاہد ناموس رسالت محمد اسمٰعیل قریشی ایڈوکیٹ نے 1984ء میں وفاقی شرعی عدالت میں ایک رِٹ پٹیشن دائر کی تھی جس میں مذہبی دل آزاری کےسابقہ قوانین کو ناکافی قرار دیتے ہوئے،ان میں توہین رسالت کے جرم کی سزا کے تعین کا مطالبہ کیا گیا تھا۔اِس دوران17 مئی1986ء کو سیکولر ایجنڈے کی اَن تھک منادی عاصمہ جہانگیرنے اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کا ارتکاب کیا جس کی روک تھام کے لئے قومی اسمبلی میں محترمہ نثار فاطمہ نے توہین رسالت کے مجرم کے لئے سزاے موت کا بل پیش کیا جس کے نتیجے میں فوجداری ترمیمی ایکٹ نمبر 3 (سال 1986ء)کے ذریعے 295سی کی صورت میں توہینِ رسالت کا قانون نافذ کیا گیا لیکن اس قانون میں توہین رسالت کی سزا ’سزاے موت یا عمر قید مع جرمانہ‘ کی صورت میں رکھی گئی تھی۔
چونکہ اس بل سے یہ قانون عین اسلام کے مطابق نہ ہوسکا ، اور جناب محمد اسمٰعیل قریشی کی رٹ پٹیشن کی ضرورت باقی رہی، اس بنا پر وفاقی شرعی عدالت میں داخل اس رٹ پٹیشن کا فیصلہ اکتوبر 1990 کو آیا جس میں 295سی سے عمر قید کی سزا حذف کرنے کی سفارش کی گئی اور فاضل عدالت نے یہ بھی قراردیا کہ حکومت ِپاکستان نے یہ اگر مجوزہ تبدیلی نہ کی تو 30 اپریل 1991ء کے بعد ’عمر قید کی سزا‘ کے الفاظ خود بخود حذف ہوجائیں گے۔ یادر ہے کہ اس فیصلہ میں یہ سزا تمام انبیا کرام کی گستاخی تک وسیع کرنے کی سفارش بھی کی گئی تھی۔[1]
یہ فیصلہ ملک کی اعلیٰ وفاقی شرعی عدالت کے پانچ فاضل جج صاحبان نے ملک کے جید علماے کرام کی معاونت سے صادر کیا ۔ ان جج صاحبان کے نام یہ ہیں:
1. چیف جسٹس گل محمد خاں سابق جج لاہور ہائی کورٹ
2. جسٹس عبد الکریم خاں کنڈی سابق جج پشاور ہائی کورٹ
3. جسٹس عبد الرزاق تھہیم سابق جج کراچی ہائی کورٹ
[1] PLD, FSC 1991, p.10