کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 42
منافقین اور ملحدین کی توبہ اُخروی احکام میں قبول ومنظور ہوتی ہے ۔ جیسا کہ فرمانِ باری ہے :
اَنَّ اللّٰهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ
’’اور اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت اور شفقت بھی اس بات کی متقاضی ہے کہ توبہ صادقہ والے کی توبہ مقبول ومنظور کی جائے ۔ ‘‘
جبکہ دنیاوی پہلو کے لحاظ سے احکامِ دنیا میں اس کی توبہ سے متعلق اہل علم کی مختلف آرا میں سے صحیح ترین رائے یہی ہے کہ اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی اور بطورِ حد ایسا شخص قتل کردیا جائے گا ۔ جیسا کہ شادی شدہ زانی کو رجم کیا جاتاہے اوراسی طرح قذف کے مرتکب کی توبہ اس سے حد ِقذف ساقط نہیں کرتی، اسی طرح توہین رسالت کے مرتکب فرد اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے والے کو بھی بطو رِحد قتل کیا جائے گا اور اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی زندگی میں یہ حق حاصل تھا کہ وہ چاہتے تو معاف کر دیتے تھے یا قتل کردیتے تھے ۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد چونکہ گالی دینے والے سے چند دیگر حقوق متعلق ہوجاتے ہیں جن میں سے:
1. اللہ تعالیٰ کا حق، کیونکہ اس نے اللہ کے رسول کو گالی دی ہے ۔
2. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حق،اب ایسا کوئی نہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حق میں نیابت کرے اور اُسے معاف کرے ۔
3. تمام اُمت ِاسلامیہ کا حق، کیونکہ کسی مؤمن کے والدین کو اگر گالی دے دی جائے تو اسے اتنی عار اور شرمندگی محسوس نہیں ہوگی جتنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے سے وہ محسوس کرتاہے ۔اس لئے کہ مؤمن اپنے والدین اوراہل وعیال کو گالی دینے کے مقابلے میں اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی جائے تو زیادہ غم وغصہ کا اظہار کرتاہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کامقام ومرتبہ کسی بھی مسلمان سے ڈھکا چھپا نہیں ۔
4۔چوتھا مسئلہ : کیا اس توبہ سے ان سے حد ساقط ہوگی ؟
گستاخِ رسول کی توبہ اس سے سزا کو ساقط نہیں کرے گی او راسے ہر حال میں سزا مل کر رہے گی، اس سلسلے میں قرآن وسنت میں بہت سے دلائل ہیں جنہیں شیخ الاسلام ابن تیمیہ