کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 4
پاکستان میں کئی ایک اسلامی قوانین متعارف کرائے گئے ہیں ۔ اگر بانی پاکستان کی کسی تقریر میں پاکستانی معاشرہ کے بارے میں کوئی احتمالی الفاظ ملتے بھی ہیں جن کا مخصوص پس منظر ہے،تو بعد ازاں اُن کے دیگر متعدد بیانات اور واضح قومی پیغامات سے اس کی صریح نفی ہوجاتی ہے۔ قراردادِ مقاصد کے ذریعے قیامِ پاکستان کی جدوجہد کے حقیقی رخ اور اہداف ومقاصد کا دستوری تعین کیا جاچکا ہے جس کو بعد میں آئین پاکستان 1973ء میں واضح تر الفاظ میں کئی ایک قانونی دفعات کی بھی شکل دے دی گئی۔لیکن نامعلوم سیکولر دانشور آئین کی حاکمیت کا دم بھرنے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود اتنے صریح استدلال کو کیوں نظر انداز کردینے پر مصر ہیں ۔پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل ہو، خلافِ شریعت قانونی دفعات کی بات ہو یا پاکستان کے نام کا مسئلہ ہو، حدود قوانین ہوں یا شرعی عدالتیں ، ان کو دستور میں طے شدہ طریق کار کے مطابق پاکستان کی اسمبلیوں نے منظور کیا ہے۔ ان صریح زمینی اور قانونی حقائق کی روشنی میں پاکستان کے سیکولر عناصر کا مغالطہ اور مباحثہ اساس کے لحاظ سے ہی غلط ہے اور اُنہیں پاکستان کی عظیم اکثریت کا یہ موقف کہ وہ پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کے شدید خواہش مند ہیں ، تسلیم کرلینا چاہئےاور اپنے اس لگاتار خلافِ دستور جرم سے باز آجانا چاہئے جو وہ غیرملکی قوتوں کی آشیر باد سے اہلیانِ پاکستان پر بزورِ جبر نافذ کرنا چاہتے ہیں ۔ کیا قانون ِتوہین رسالت جنرل ضیاء الحق مرحوم نے نافذ کیا تھا؟ یہ دعویٰ کیاجاتاہے کہ یہ قانون ایک آمر ضیاء الحق نے متعارف کرایا تھا، جبکہ امر واقعہ اس کے بالکل خلاف ہے۔ آمروں کے بنائے ہوئے قوانین سے تو پاکستان میں لادینیت اور فحاشی کو تحفظ حاصل ہورہا ہے جس کے خلاف کوئی آواز اُٹھائی نہیں جاتی اور تحریک بپا نہیں کی جاتی۔ پاکستان میں خلافِ اسلام عائلی قوانین ہوں یا ویمن پروٹیکشن بل، یہ دونوں قوانین واضح طورپر فوجی آمر ایوب خاں اور پرویز مشرف کے لاگو کردہ ہیں ، اس کے باوجود سیکولر حلقوں اور بزعم خود ’سول سوسائٹی‘ میں ان کو بسر وچشم قبول کیا جاتا ہے اور اسلامی قوانین کے خلاف فضائے عامہ ہموار کرنے کے لئے ان پر’آمر کے قوانین‘ کی پھبتی کسی جاتی ہے۔ 1973ء کے متفقہ دستور کی دفعہ نمبر 227 میں اہلیانِ پاکستان کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ