کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 30
فقہ واجتہاد حافظ ابتسام الہی ظہیر
توہین رسالت کی سزا پر اُٹھائے جانیوالے اعتراضات
توہین رسالت کا مسئلہ قرآن وسنت میں بڑی شرح وبسط سے بیان ہوچکاہے ، اور اجماع امت سے اس کی توثیق ہوچکی ہے ۔ توہین رسالت کے حوالے سے جو اعتراضات بالعموم اُٹھائے جاتے ہیں ، ان کا حقیقت میں نہ علم سے تعلق ہے اور نہ ہی قرآن کے متون سے ان کا کوئی دور کا واسطہ ہے ۔ اسی طرح تفسیر وحدیث اور نہ ہی اجماعِ اُمت اس کی تائید کرتے ہیں ۔ یہ محض ضد، انانیت اور جناب رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں عقیدت ومحبت کی کمی ہے جس بنیاد پر اس طرح کی بے ہودہ باتیں سربازار عام کی جاتی ہیں ۔
قانون توہین رسالت295-C))کے حوالے سے اور شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا اور اس کے نفاذ کے حوالے سے جوبھی اعتراض اٹھائے گئے ہیں ، اُن کی بنیاد نہ قرآن ہے، نہ حدیث، نہ تاریخ ہے،نہ سیر ت۔یہ اعتراضات محض مغرب زدہ اور علم سے بے بہرہ لوگوں کے پیدا کردہ ہیں ۔قانونِ توہین رسالت 295C)) متن یوں ہے :
’’جو بھی حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے اندر کوئی توہین آمیز الفاظ یا کوئی (Derogatory)کہے گا تو اس کی سزا یہ ہے کہ اس کو قتل کردیا جائے ۔‘‘
لہذا توہین رسالت کے قانون اور شرعی سزا پر اٹھائے جانے والے اعتراضات اور ان کے جوابات ملاحظہ فرمائیں ۔
پہلااعتراض :نیت کا معاملہ
جہاں (Derogatory) الفاظ کی بات ہوئی عام طور پر وہاں نیت کا ذکر نہیں کیا گیا۔ ضروری نہیں کہ جس شخص نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں معاذ اللہ تنقیص کی ہے، اس کی نیت میں بھی وہ بات موجود ہو ۔
جواب :شریعت ِاسلامیہ کی رو سے جو اعمال احسن ہوتے ہیں ، ان میں اللہ تعالیٰ کو نیت