کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 3
درآمد کے علاوہ غیرمشروط تجارتی ومعاشرتی تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے۔ آسیہ مسیح کے واقعہ کے تناظر میں ایک بار پھر یہ طبقہ قانونِ توہین رسالت کی تنسیخ کے حوالے سے انتہائی متحرک ہوچکا ہے اور اس متحرک اقلیت کی نمائندہ شیری رحمن نے اپنی ماضی کی الحادی روایات کے عین مطابق،قومی اسمبلی میں مؤرخہ 24 نومبر 2010ء کو ایک بل جمع کرایا ہے، جیسا کہ اس سے 2006ء قبل حدود قوانین کے خلاف بھی پیپلز پارٹی کی اسی دین بیزار رہنما نے قومی اسمبلی میں بل پیش کیا تھا، اور 2004ء میں پاکستان میں قتل غیرت کے جرائم پر مطلوبہ قانون سازی بھی اس نے ایک بل کی صورت پیش کی تھی۔ حالیہ بل کا مقصد یہ ہے کہ موجودہ امریکہ نوازحکومت سےاور بہت سے ظالمانہ اقدامات کے ساتھ ساتھ قانون توہین رسالت کا خاتمہ بھی کروا لیا جائے۔ ملک میں اس وقت توہین رسالت کے قانون کے حوالہ سے جاری مظاہرےاور مباحثے کا یہی پس منظر ہے۔قانون توہین رسالت پر اُٹھائے جانے والے اعتراضات اور شبہات کا ایک جائزہ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے، مزید برآں ایک مختصر تاریخی تجزیہ کے ساتھ اس قانون کو غیرمؤثر کرنے کی مرحلہ وار تفصیل پیش کی جارہی ہے جس کی روشنی میں آئندہ کا منظرنامہ بڑی حد تک واضح ہوجائے گا : کیا پاکستان ایک سیکولر ملک ہے؟ توہین رسالت کے قوانین کے خلاف پاکستان کا ملحد وسیکولر طبقہ اور عالمی قوتیں اس لئے مجتمع ہیں کہ اُنہیں پاکستان جیسی ایٹمی قوت کا اسلامی تشخص بہت چبھتا ہے۔سیکولرنظریات کے ناطے وہ ہر اس قانون اور علامت کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو اسلام کے نام پر وجود میں لائی گئی ہو۔ یہ لوگ اسلام کے کسی قانونی تصور کو ریاستی سطح پر نافذ کرنے کے شدید مخالف ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ اگر اہانت ِرسول کا کوئی قانون اسلام میں موجود ہو بھی، تب بھی اس کو ریاستی سطح پر ’جرم‘ کی بجائے مغرب کی طرح یہاں بھی محض مذہبی بنیاد پر ’ایک گناہ‘ کی حیثیت تک محدود کردیا جائے اور ان قوانین کی تنفید سے ریاست کو کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے۔ جبکہ دوسری طرف یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان کا وجود ہی کلمہ طیبہ کا مرہونِ منت ہے۔ قرار دادِ مقاصد کی منظوری اور اس کے بعد1973ء کے متفقہ آئین میں