کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 27
بھی اس عہد کی پاسداری کرو ۔ اور ان کو تحفظ دو اور اگر ایسا نہ کریں :
وَ اِنْ نَّكَثُوْۤا اَيْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَ طَعَنُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ فَقَاتِلُوْۤا اَىِٕمَّةَ الْكُفْرِ١ۙ اِنَّهُمْ لَاۤ اَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُوْنَ (التوبہ :۱۲)
’’اور اگر عہد کرنے کے بعد اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں اور تمہارے دین میں طعن کرنے لگیں تو (ان) کفر کے پیشواؤں سے جنگ کرو۔ (یہ بے ایمان لوگ ہیں اور) ان کی قسموں کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔ عجب نہیں کہ (اپنی حرکات سے) باز آجائیں ۔‘‘
یعنی عہد توڑ دیں تو پھر ان سے قتال کرنا تمہارا فرض ہے، اس میں پس وپیش سے کام نہیں لینا چاہئے ۔ پھر مؤمنین کی غیرتِ ایمانی کو جھنجوڑتے ہوئے کہا :
اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُوْۤا اَيْمَانَهُمْ وَ هَمُّوْا بِاِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ وَ هُمْ بَدَءُوْكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ. اَتَخْشَوْنَهُمْ۠ فَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْهُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ (التوبہ:۱۳)
’’بھلا تم ایسے لوگوں سے کیوں نہ لڑو (جنہوں نے اپنی) قسموں کو توڑ ڈالا اور اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو جلا وطن کرنے کا عزمِ مصمم کرلیا اور اُنہوں نے تم سے (عہد شکنی کی)ابتدا کی؟ کیا تم ایسے لوگوں سے ڈرتے ہو؟حالانکہ ڈرنے کے لائق اللہ ہے بشرطیکہ ایمان رکھتے ہو۔‘‘
یعنی کیا ان لوگوں کے خلاف اقدام کرنے میں تم پس وپیش کرو گے ، کیوں آگے نہیں بڑھتے :
قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَ يُخْزِهِمْ وَ يَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَ يَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَۙ وَ يُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوْبِهِمْ (التوبہ:۱۴،15)
’’اُن سے خوب لڑو۔ اللہ ان کو تمہارے ہاتھوں سے عذاب میں ڈالے گا اور رسوا کرے گا اور تم کو ان پر غلبہ دے گا اور مؤمن لوگوں کے سینوں کو شفا بخشے گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ اس بات کا حکم دے رہے ہیں کہ ان سے قتال کیا جائے۔’’اللہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے اِنہیں عذاب دے گا ۔‘‘ اِنہیں رسوا کرکے ذلیل کرکے اللہ عزوجل مسلمانوں کے سینے ٹھنڈے کرنا چاہتے ہیں اور ان کی مدد فرمانا چاہتے ہیں ۔ اس لئے اگر کوئی معاہد غیر مسلم ہو، مسلمان حکومت کا شہری تو اس کا بھی یہ تحفظ ختم ہوجاتاہے اور وہ اس بات کا حق دار اور سزاوار ہوتاہے کہ اس کو قتل کردیا جائے ۔
احادیث رسول سے ذمی اور معاہد شاتم رسول کے قتل اور نقض عہد کے دلائل
1. پہلی دلیل : کعب بن اشرف یہودی معاہد تھا اور مدینہ کی ریاست کا شہری تھا،لیکن