کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 20
ایک امتیازی اقدام ہے۔ جس کے نتیجے میں لازمی طور پر فریقین کو مشکلات کا سامنا کرنے پڑے گا۔ لہٰذا مغرب نواز این جی اوز کے اپنے نکتہ نظر کی روشنی میں بھی امتیازی خصوصیت کے باوصف یہ ترامیم قابل استرداد ہیں ۔ قانونی ماہرین اور مسلم مفکرین کا فرض ہے کہ وہ اس سلسلے میں عوام الناس میں آگہی کی ایک تحریک چلائیں اور ارکانِ اسمبلی کو درست سمت میں رہنمائی مہیا کرکے اُنہیں اس تبدیلی کے خلاف متحرک کریں ۔ نیزقانونِ توہین رسالت کے اجرائی قانون میں تاخیری حربوں کے انسداد کی بھی تحریک چلائیں ، جن کی بنا پر اس قانون کی بنا پر کسی کو سزا دلوانا انتہائی مشکل بنادیا گیا ہے۔ جہاں تک اصل قانون توہین رسالت میں تبدیلی کا تعلق ہے تو یہ امر بالکل ظاہر ہے کہ 10 سال قید یا چند روپے جرمانہ کی سزا کا قانون شریعت ِاسلامی سے سنگین انحراف ہے، جو خلافِ اسلام ہونے کے ساتھ ساتھ دستورِ پاکستان کی دفعہ 227 وغیرہ کے بھی خلاف ہے،جن میں پاکستان کے تمام قوانین کو اسلام کے مطابق کرنے کا دعو یٰ کیا گیا ہے۔ اندریں حالات پاکستان کے حکمرانوں ، مقتدر طبقہ اور مسلمان عوام پر یہ لازم ہوتا ہے کہ اس خلافِ اسلام تبدیلی کو ہر مرحلہ پر ردّ کرنے کی بھر پور کوششیں کریں تاکہ پاکستان میں شانِ رسالت میں گستاخی کرنے والے اپنے حقیقی انجام کو پہنچ سکیں ۔ دنیا بھر میں ناموسِ رسالت کو اس قدر اَرزاں کردیا گیا ہے کہ انسانی تاریخ اس ہمہ گیر ومسلسل زیادتی واہانت کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔اسلام کے نام پر حاصل کئے جانے والے ملک پاکستان میں بھی اگر شانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت نہ کی جاسکی اور سالہا سال میں ہونے والی ایک مثبت قانونی پیش قدمی کو تحفظ نہ دیا جاسکا تو پھر دیگر اسلامی قوانین کی کیا قدر و وقعت باقی رہ جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ایسی قوت ونصرت عطا فرمائے جس سے اس دور میں ناموسِ رسالت میں گستاخی کرنے والوں کو ان کے مکروہ انجام تک پہنچایا جاسکے۔ آمین! (ڈاکٹر حافظ حسن مدنی)