کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 19
وہ اس اطلاع کی بنیاد پر ایف آئی آر درج کرے اور اس کے بعد اپنی تفتیش کا آغاز کرے۔ تفتیش کے بعد اگر وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ یہ اطلاع غلط یا بے بنیاد تھی تو وہ دیگر اختیارات کے علاوہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ157 کے تحت متعلقہ مجسٹریٹ کو تحریری رپورٹ بھیجوا کر مزید کاروائی کو نہ صرف روک سکتا ہے بلکہ حتمی رائے قائم کرنے کے بعد دفعہ 182کے تحت جھوٹا مقدمہ درج کروانے پر، اطلاع دہندہ کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اسے عدالت سے باقاعدہ سزا بھی دلوا سکتا ہے۔ اس طے شدہ قانونی طریقے سے انحراف کرکے توہین رسالت کے معاملے میں تفتیش کو ایس ایچ او کے بجائے ایس پی کے حوالے کرنا ایک تو رائج الوقت قانونی تقاضوں سے ہٹ کر ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان کا ہر شخص جانتا ہے کہ ایک وسیع و عریض سرکل میں صرف ایک ایس پی تعینات ہوتا ہے۔ بے شمار دیگر انتظامی اُمور اسکے ذمہ ہوتے ہیں ۔ عام آدمی کا اپنے علاقے کے تھانہ تک پہنچنابھی دشوار ہوتا ہے۔ دوسرے قصبات اور علاقوں سے سفر کرکے ایس پی صاحب کے دفتر میں حاضر ہونا اور پھر مسلسل شامل تفتیش ہونے کے مراحل سے گزرنا عملی طور پر ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اس جرم کے ارتکاب کی اطلاعات کا اندراج درپیش مشکلات کی وجہ سے از خود کم ہوجائے گا اور جو افراد ایس پی تک رسائی کرکے اطلاع فراہم بھی کردیں گے، اُنہیں بھی پہلے ایک مجرم کی طرح تفتیش کے مراحل سے گزرنا پڑے گا اور گواہوں کے سفروحضر کے اخراجات برداشت کرنا ہوں گے۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر یقین ہونے لگتا ہے کہ توہین رسالت کے متعلق مقدمات کے اندراج اور مقدمات پر کارروائی کو عملی طور پر ناممکن بنایا جارہا ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ قانون توہین رسالت کی مخالفت کرنے والی این جی اوز دیگر خود ساختہ وجوہات کے علاوہ یہ اعتراض بھی بہت شدومد سے کرتی ہیں کہ قانونِ توہین رسالت ایک امتیازی قانون ہے۔ جبکہ ہمارے نزدیک ترمیمی قانون کے ذریعے اس کا طریقۂ تفتیش ضابطہ فوجداری میں بیان کردہ عام طریقے سے الگ کرنا بجائے خود