کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 18
1. دفعہ 295 بی میں قرآنِ کریم کے تقدس کو پامال کرنے کی سزا عمر قید کی بجائے صرف پانچ سال قید یا جرمانہ کردی جائے۔
2. جبکہ 295 سی میں توہین رسالت کی سزا کو موت کی بجائے 10 سال قید یا جرمانہ سے تبدیل کردیا جائے۔
3. یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ 203 اے کی صورت میں یہ اضافہ کیا جائے کہ توہین کے تمام قوانین، 295اے بی اور سی کی غلط رپورٹ کرنے والے کو وہی سزا دی جائے جو اس جرم کے ارتکاب کی صورت میں بنتی ہے۔گویا توہین رسالت کی سزا کی غلط رپورٹ کرنے والے کو وہی سزا دی جائے جو توہین رسالت کے مرتکب کو دیا جانا مطلوب تھی۔
4. اقلیتوں کے تحفظ کے لئے مطالبہ یہ بھی ہے کہ 298 ای کی ایک شق کا اضافہ کیا جائے جس کی رو سے مذہبی منافرت پھیلانے میں ایسی معاونت جوامتیاز اورتشددکو تحریک دے، اس کے مرتکب کو سات سال تک قید یا جرمانہ یا دونوں سزا ئیں دی جائے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ اس قدر سنگین اہانتوں کے مرتکب کے لئے سزائے قید یا جرمانہ ، ہردو کا امکان برقرار رکھا گیا ہے، جبکہ جرمانہ کا کوئی تعین بھی نہیں کیا گیا ۔ گویا توہین رسالت کے مرتکب کو چند روپے جرمانہ بھی کردیا جائے تو قانوناً اس کی گنجائش موجود ہے۔
تبصرہ وتجزیہ
مذکورہ بالا ترامیم سے پتہ چلتا ہے کہ یہ وہی ترامیم ہیں جو قانونِ توہین رسالت کی منظوری کے معاً بعدبے نظیر بھٹو کی وفاقی کابینہ نے 1994ءمیں پیش کی تھیں کہ توہین رسالت کی سزا 10 سال قید اور غلط شکایت کرنے والے کو بھی وہی سزا دی جائے۔
مشرف دور میں کی جانے والی قانونی تبدیلی میں بظاہر تو ایف آئی آر کی تفتیش کے طریقۂ کار میں تبدیلی تجویز کی گئی تھی لیکن درحقیقت یہ تبدیلی قانون توہین رسالت کے تحت درج مقدمات میں پیش رفت کو سست بلکہ بے اثر بنانے کے لئے عمل میں لائی گئی تھی۔
فوجداری قانون کا یہ مسلمہ اُصول ہے کہ جب بھی کسی تھانہ کے انچارج پولیس آفیسر کو کسی قابل دست اندازی پولیس جرم کی اطلاع موصول ہو تو اس پر لازم ہے کہ