کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 17
بنایا جارہا ہے۔ ننکانہ کی آسیہ مسیح کی دریدہ دہنی اور بار بار اس کا اعتراف، اپنی بقید ِحیات بہن کے شوہر کے ساتھ اس کا نکاح جس کی بنا پر اس علاقہ کے عیسائی بھی آسیہ کے مخالف ہیں ، اور مسیحیت کی تبلیغ کے ساتھ اس کی شانِ رسالت میں گستاخی کی تمام تفصیلات[1] میڈیا پر آچکی ہیں ۔اس کے باوجود 20 نومبر کو گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا اپنی بیٹیوں اور بیوی کےہمراہ شیخوپورہ جیل میں اس سے ملاقات کرنا اور اس کو بےگناہ قرار دینا، بعد ازاں حکومت کا شاتمہ آسیہ مسیح کو شیخوپورہ جیل سے نامعلوم مقام پر منتقل کرنا اور صدر زرداری کو اس کی سزا معافی کی درخواست، ایسی عجیب وغریب چیزیں ہیں جو حکمرانوں کی توہین رسالت کے مجرموں کے ساتھ غیر معمولی ہمدردی کا برملا اظہار کررہی ہیں ۔ آسیہ مسیح نے شانِ رسالت میں چند مسلمان خواتین کی موجودگی میں مؤرخہ 14جون 2009ء کو گستاخی کا ارتکاب کیا۔ اور ایڈیشنل سیشن جج ننکانہ جناب محمد نوید اقبال نے کئی ماہ پرمحیط تفصیلی سماعت کے بعد 8نومبر 2010ء کو ملزمہ کو سزاے موت اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی۔جس کے بعد2 نومبر کو گورنر پنجاب نے جیل جا کر ، پورے عدالتی عمل کو سبوتاژ کرتے ہوئے آسیہ کو بے گناہ قرار دیا۔معلوم ہوا کہ قانون کے اجرا کی راہ میں ماضی میں تمام تر رکاوٹیں حائل کرنے کے باوجود، آخرکار سیشن کورٹ سے بھی کسی ملزمہ کو سزا ہوجائے تو پاکستان کے لادین عناصر اس کو بھی گواراکرنے کو تیار نہیں ۔چنانچہ اُنہوں نے اصل قانون میں تبدیلی کی ضرورت کا اِدراک کرتے ہوئے اس بار مزید پیش قدمی کی۔ میڈیا میں اس واقعہ کے نمایاں ہونے کے چند ہی دنوں کے دوران شیری رحمٰن نے 24 نومبر کو قومی اسمبلی میں قانونِ توہین رسالت کے خلاف ترمیم کا بل [بنام توہین رسالت ترمیمی ایکٹ2010ء] داخل کردیا ۔ بل میں کوئی نئی بات نہیں ، بلکہ اس بار اس کا مقصد ایک طرف اصل قانون میں تبدیلی اور دوسری طرف اس قانون کے ضمن میں شکایت کرنے والے کو نشانِ عبرت بنا دینا ہے۔
[1] مکمل تفصیل: مقدمہ توہین رسالت کے اصل حقائق: ماہنامہ ’ملیہ‘ فیصل آباد، دسمبر 2010ء ، ص 16 تا 23