کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 16
3.مشرف حکومت اور قانونِ توہین رسالت: جنرل پرویز مشرف نے 21مئی 2000 کو یہ اعلان کیا کہ قانون توہینِ رسالت کا غلط استعمال ہورہا ہے، اس لئے اس کے طریقۂ نفاذ میں مزید تبدیلی کی ضرورت ہے لیکن عوام کے شدید ردّ عمل کے بعد عملاً اس تبدیلی کوملتوی کردیا گیا۔مئی 2004ء میں جنرل مشرف نے قانونِ توہین رسالت پر دوبارہ نظرثانی کا اعلان کردیا۔ان دنوں اعجاز الحق وزیر مذہبی اُمور تھے، اُنہوں نے جولائی 2004ء میں یہ بیان جاری کیا کہ توہین رسالت کی غلط شکایت کرنے والے کو موت کی سزا دی جائے گی، گویا اصل جرم کی سزا کے عین برابر ۔ وزیر موصوف کی یہ قانون فہمی اور سفارش بھی شرمناک جسارت سے کم نہ تھی۔ آخرکار نومبر 2004ء میں پاکستان میں قتل غیرت کے جملہ قوانین کے ساتھ قانونِ توہین رسالت میں بھی تبدیلی کردی گئی۔ یاد رہے کہ قتل غیرت کے حوالے سے قانون سازی کے مطالبے میں بھی شیری رحمٰن پیش پیش تھی، اور اس موقع پر اس نے قومی اسمبلی میں ’خواتین کو با اختیار بنانا‘کے عنوان سے ایک بل جمع کرایا تھا۔
قانونِ توہین رسالت میں مشرف حکومت نے جو ترمیم پیش کی، اس کا تعلق بھی طریقۂ نفاذکی تبدیلی سے تھا۔ واضح رہے کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 156 کا تعلق وقوعہ جرم کی رپورٹ سے ہے، اس میں نومبر 2004ء میں پیش کئے جانے والے ’کریمنل لاء ایکٹ 2004ء‘ کی دفعہ 9 کی رو سے 156 اے اور بی، دو ترامیم کا اضافہ کیا گیا۔156 بی کا تعلق تو حدود قوانین کی رپورٹ سے تھا، جبکہ 156 ا ے کا تعلق قانونِ توہین رسالت کی تنفید سے۔اس بل کی منظوری کے بعدضابطہ فوجداری میں 156 اے کااضافہ کردیا گیا، جس کا متن یہ تھا:
156/اے: تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295 سی کے تحت جرم کی تفتیش : ’’سپرنٹنڈنٹ پولیس کے عہدے سے کم رتبے کا کوئی پولیس آفیسر تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295سی کے تحت درج مقدمے کے ملزم سے تفتیش نہیں کرسکے گا۔‘‘
یہ قانون اس وقت ضابطہ فوجداری میں محولہ دفعہ کے تحت موجود اور نافذ عمل ہے۔
4.زرداری دور میں قانونِ توہین رسالت کو غیرمؤثر او رتبدیل کرنے کی کوشش
موجودہ دور میں آسیہ مسیح کے کیس کے ذریعہ ایک بار پھر قانونِ توہین رسالت کو نشانہ