کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 15
’’وزیراعظم میاں نواز شریف نے وفاقی وزیرمذہبی واقلیتی اُمور سینیٹر راجہ ظفر الحق کی رپورٹ پر توہین رسالت کے مبینہ واقعات میں FIR کے اِندراج کے قانون میں ترمیم کی منظوری دے دی ہے ۔ یہ انکشاف قومی اسمبلی کے رکن اور سابق وزیر مملکت ڈاکٹر روفن جولیس نے سینیٹر راجہ ظفر الحق کی زیر صدارت اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں شرکت کے بعد صحافیوں سے بات چیت کے دوران کیا ۔اُنہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے ہدایت کی ہے کہ جہاں توہین رسالت کا مبینہ واقعہ پیش آئے،اس علاقے کے اچھی شہرت کے حامل دوایمان دار، سچے مسلمان اور دو عیسائی منتخب کیے جائیں ۔ ڈپٹی کمشنر، ایس ایس پی اور ان چار اَفراد سمیت چھ اَفراد پر مشتمل ایک کمیٹی اس واقعہ کی تحقیقات کرے گی اور اگر تفتیش کے دوران جرم ثابت ہوگیا تو کمیٹی کی رپورٹ پرFIRدرج کی جائے گی۔ ‘‘[1] افسوس ناک امر یہ ہے کہ صدرِ مملکت محمد رفیق تارڑ، وفاقی وزیر مذہبی اُمور سینیٹر راجہ ظفر الحق اور نواز شریف وشہباز شریف جیسے بظاہر ’عاشقانِ رسول‘ کی حکومت میں قانون توہین رسالت کو غیرمؤثر کرنے کے قانونی تقاضے پورے کرلئے گئے۔یہ وہی لوگ تھے جو اس سے قبل عوام میں سستی مقبولیت کے لئے اس قانون کی برملا حمایت کیا کرتے تھے۔ بینظیر حکومت نے اس قانون کو ناقابل دست اندازی پولیس قرار دیا، لیکن اصل قانون میں تبدیلی نہ کرسکی۔ جبکہ نواز حکومت نے ایسی کمیٹی کو اس کی شکایت کے لئے ضروری قرار دیا ، جو ڈپٹی کمشنر، ایس ایس پی اور دو مسلمان، دو عیسائی سچے افراد پر مشتمل ہو۔اس قد رسنیئر افسران اور ہر محلہ میں مسلم عیسائی افراد کی موجودگی کی مشکل اور تاخیری شرائط کے ذریعے جرم کی سزا کے نفاذ میں ایسی سنگین رکاوٹیں کھڑی کی گئیں کہ قانون بظاہر باقی رہے لیکن اس کی سزا کسی کو نہ ہوسکے۔ ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی کی بیش بہا مصروفیات اوراس پر مستزاد اُن کےعموماً دین گریز رجحانات کا واضح نتیجہ یہ تھا کہ ایسے جرم کی سزا آغا ز میں ہی اس قدر مشکل بنا دی جائے کہ اس کی شکایت کرنے سے قبل کوئی مسلمان بیسیوں بار سوچے۔
[1] روزنامہ ’نواے وقت ‘ لاہور: 14 جون1998ء