کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 13
پارلیمان کی قانون سازی کے نتیجے میں حتمی ہوکر کتابِ قانون کا حصہ بنا،لیکن قانون کی تشکیل کے موقع پر 1992ء میں ہی پیپلز پارٹی کی قیادت اس حوالے سے شدید پریشانی اور خلجان میں مبتلا تھی۔
٭ قائد ِحزب اختلاف بینظیر بھٹو نے جولائی 1992ء میں پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے کے موقع پر اس بے چینی کا اظہار ان الفاظ میں کیا تھا کہ
’’پاکستان جیسے مسلم اکثریتی ملک میں ایسا قانون غیر ضروری ہے ، یہاں کی مسلم اکثریت خود ہی اپنے نبی کے تقدس کی حفاظت کرسکتی ہے۔پارلیمنٹ کے ذریعے ایسا قانون منظور کرانا ملک کو بنیاد پرست ریاست بنانے کی کوشش ہے جس سے عوام کے حقوق سلب ہوں گے اور پاکستان بدنام ہوگا۔‘‘ [1]
٭ اگلے سال اقتدار میں آتے ہی بینظیر حکومت نے ’لاء کمیشن‘ کے ذریعے 20 دسمبر 1993ء کو اسلامی نظریاتی کونسل سے اس قانون میں ترمیم کی سفارش کی اور یہ مطالبہ کیا کہ اس جرم کو ناقابل دست اندازی پولیس بنادیا جائے۔
٭ اپریل 1994ء میں بینظیر حکومت کی وفاقی کابینہ نے اس جرم کی سزا محض 10 سال قید میں تبدیل کرنے کا فیصلہ دیا۔جولائی1994ء میں اس حکومت کے دو وزرا: وزیر تعلیم ڈاکٹر شیرافگن اور وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے یہ بیانات دیے کہ توہین رسالت اب ایک قابل دست اندازی پولیس جرم نہیں رہا، اب اس کی رپورٹ سیشن کورٹ یا کم ازکم علاقہ مجسٹریٹ کے پاس ہی بطورِ استغاثہ درج ہوگی۔ مزید برآں غلط شکایت پر 10 سال کی سزا بھی لاگو کردی گئی ہے۔ [2]
پولیس کے قابل دست اندازی جرم نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس جرم کی سزا دلوانا، دیگر جرائم کی طرح پاکستانی حکومت کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ اس جرم کے وقوع پر سیشن کورٹ میں شکایت درج کرانے پر ہی اس کے خلاف کاروائی ہوگی، اور پہلے شکایت کنندہ کو
[1] روزنامہ جنگ،کراچی:10 اگست 1992ء
[2] روزنامہ دی نیوز: 14 جولائی 1994ء