کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 12
دیتاہے جس سے چودہ صدیوں سے پوری اسلامیت وابستہ چلی آرہی ہے۔ اور اسلام یہ حق ، ذاتِ گرامی کو منصب ِرسالت کی بنا پر دیتا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے فرستادہ تمام انبیاے کرام کا بھی حق ہے۔اسلام کی نظر میں یہ حق اللہ کے حق اطاعت سے مقرون ومتصل ہے اور اس پر قرآنِ کریم کی درجنوں آیات شاہد ہیں ۔ قانون امتناعِ توہین رسالت کو غیر مؤثر کرنا پاکستان میں توہین رسالت کے قانون کو سیکولر عناصر نے کبھی قبول نہیں کیا اور اس قانون کے نفاذ کے فوراً بعد سے پاکستان کو عالمی اداروں کی طرف سے ملنے والی تمام تر امداد اس قانون کے خاتمہ سے مشروط رہی ہے۔ اگر برطانیہ، فرانس یا امریکہ نے کبھی کوئی تجارتی لین دین، یا اسلحے کی خریدوفروخت کا معاہدہ کیا ہے تو اسے بھی اس قانون کے خاتمے سے مشروط کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بارہا اس بنا پر پاکستان کے خلاف رپورٹیں پیش کی ہے،حالانکہ بیشتررپورٹوں میں کوئی شے حقائق پر مبنی نہیں ۔ ان عالمی اداروں کی رپورٹیں پاکستان میں مغرب کے گماشتوں کی تیار کردہ ان فرضی رپورٹوں کا چربہ ہوتی ہیں جنہیں وہ ادارے اپنے علاقائی یا عالمی مقاصد کے تحت ایک تسلسل سے امریکہ واقوام متحدہ وغیرہ میں ارسال کرتے رہتے ہیں ۔ بہرحال اس لگاتار مہم بازی کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کےحکمران اس قانون کو نافذ کرنے کی بجائے اسےختم کرنے کے درپے ہوگئے۔ نواز شریف جس کے پہلے دور حکومت میں قومی اسمبلی نے یہ قانون منظور کیا تھا، اس کے دوسرے دورِحکومت میں اس قانون کی تاثیر پر اس طرح شب خون مارا گیا کہ اس پر جس قدر افسوس کیا جائے، کم ہے۔حکمرانوں میں نہ تو ایسی سیاسی قوت ہے کہ وہ اس قانون کو براہِ راست نشانہ بنا سکیں اور نہ ہی پاکستان کا دستور اس خلافِ شرع اقدام پران کی حمایت کرتاہے، چنانچہ حکمرانوں نے ہمیشہ اصل قانون کی بجائے قانون کے اجرا کے طریقہ کار میں ترمیم کی درپردہ کوششیں کیں ۔ 1. بینظیر حکومت اور قانون توہین رسالت: جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ پاکستان میں توہین رسالت کا موجودہ قانون 1991ء میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ اور پھر جولائی 1992ء میں