کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 11
توہین رسالت کی سزا کیا ’انسانی حقوق‘ کے منافی ہے؟
اوپر بیان کردہ حقائق کے بعد یہ امر بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ جب توہین مسیح کا قانون مغرب کے اکثر ممالک میں نافذ العمل ہے اور یورپی ممالک کی عدالتیں ان کے فیصلوں کو نافذ کرتی اور یہ بھی قرار دیتی ہیں کہ یہ قانون انسانی حقوق کے خلاف نہیں ہے تو پھر پاکستان میں کیوں کر اس کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا جاسکتا ہے؟
یورپ کے بعض ممالک مثلاً ڈنمارک، اسپین، فن لینڈ، جرمنی، یونان، اٹلی ، آئرلینڈ، ناروے ، آسٹریا، نیدر لینڈ وغیرہ میں بھی مذہبی جذبات کی توہین پر سنگین سزائیں موجود ہیں اور برطانیہ میں تو ملکہ کی توہین کو بھی اس میں شامل کرلیا گیا ہے۔ اس کےبعد پاکستان میں اس قانون کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دینے کی کیا تک ہے؟
دراصل انسانی حقوق کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی رہنمائی سے کٹ کر انسانوں نے اپنے تئیں بعض حقوق کا تعین کرلیا ہے۔ دوسری طرف اسلام نام ہی اس امر کا ہے کہ کوئی انسان اپنے آپ کو مخلوق تسلیم کرکے خالق کی رضا کے لئے مطیع وفرمانبردار ہوجائے۔ او رجو حقوق اس مطیع بندے کو اس کا خالق دے، یعنی حقوق العباد تو اِن حقوق تک اکتفا کرے۔ اسلام کے نظریۂ حقوق میں سب سے بالا تر حق اس ذاتِ گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے جو انسان کو اس کے خالق ربّ العٰلمین سے جوڑتی ہے۔اگر اس ذات پر ایمانِ کامل ہو اور اس کی محبت واطاعت موجود ہو تو اس کے نتیجے میں ہی قرآنِ کریم او رخالق کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے اسلام کی نظر میں تما م حقوق سے بالا ترحق ذات گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، جسے اسلام میں ’امّ الحقوق‘ کا درجہ حاصل ہے۔ اس کے بالمقابل مغرب کا نظریۂ حقوق ’خالق کے تصور سے ناآشنا اورانسان پرستی‘ کے رویے کا حاصل ہے۔ ایک طرف حقوق العباد کی بات ہے تو دوسری طرف حقوقِ انسان کی بات ہے۔ دونوں حقوق کا سرچشمہ اور نظریہ وڈھانچہ ہی مختلف ہے تو دونوں میں ظاہری مطابقت حاصل ہوبھی جائے تو بھی جزوی مماثلت سے کیا حاصل۔الغرض انسانی حقوق کے ایجنڈے پر کارفرما جدید مغربی ریاست سب سے بالا تر حق ریاست کا قرار دیتی ہے تو اسلام سب سے بالاتر حق اس ملت ِاسلامیہ کے مرکز ومحور کا قرار