کتاب: محدث شمارہ 343 - صفحہ 10
میں امریکہ میں مسیح کے پیروکاروں کی تعداد زیادہ ہے۔ امریکہ کے بڑے عہدیدار بائبل پر ہی حلف لیتے ہیں ، چنانچہ عدلیہ، مقننہ او رانتظامیہ کا مذہب سے یک گونہ تعلق بالکل واضح ہے۔ اس بنا پر آزادئ مذہب، آزادئ پریس اوربنیادی حقوق،توہین مسیح کے قانون اور اس کی بابت قانون سازی میں قطعاً مزاحم نہیں ہیں ۔‘‘ (مختصراً) یاد رہے کہ امریکہ میں دیگر مذاہب اور ان کی مقدس شخصیات کی توہین قابل مؤاخذہ جرم نہیں ، البتہ توہین مسیح کی سزا موت کی سزاکے خاتمہ کے بعد عمر قید کردی گئی ہے۔ ٭ ایسے ہی جب برطانیہ میں جب شاتم رسول سلمان رشدی کو تحفظ دینے کا واقعہ پیش آیا تو برطانیہ اس کی حفاظت کے لئے کھڑا ہوگیا ۔ برطانیہ کے مسلمان باشندوں نے یہ مطالبہ کیا کہ برطانیہ میں توہین مسیح کے قانون کے ساتھ توہین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شق کو بھی شامل کرلیا جائے تو برملا اس سے انکار کیا گیا او رواضح جانبداری دکھائی گئی کہ برطانیہ صرف عیسائیوں کے حقوق کا ہی محافظ ہے۔ یہ ہے مذہبی غیرجانبداری کا دعویٰ کرنے والوں کا مکروہ چہرہ! اس موقع پر برطانیہ کے وزیر قانون جان پیٹس نے مسلمانوں کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے تحریری طورپر بتلایا کہ حکومت ِبرطانیہ توہین مسیح کے قانون میں کسی قسم کی ترمیم کو جائز قرار نہیں دیتی۔ پھر برطانیہ کی سب سے بڑی عدالت ’ہاؤس آف لارڈز‘ نے اس بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے حکومت ِبرطانیہ کے موقف کو درست قرار دیا اور لکھا کہ ’’برطانوی قانون کی روسے مذہب ِاسلام پر جارحانہ حملہ غیرقانونی نہیں ہے۔ اگر حکومت ِبرطانیہ قانونِ توہین مسیح میں اسلام کے قانون توہین رسالت کی کوئی شق شامل کردے تو برطانیہ کی اعلیٰ عدلیہ اس کو یہاں نافذ کرنے سے گریز کرے گی۔ ‘‘ یہ رویہ صرف یورپ وامریکہ کا ہی نہیں بلکہ یورپ کی ’ہیومن رائٹس کورٹ‘ کو بھی جب مسلمانوں نے اس ضمن میں درخواست دی تو اُس نے مسلمانوں کی یہ درخواست مسترد کردی۔[1]
[1] دیکھئےمضمون :’قانون توہین رسالت کے نئے معنی ومفہوم‘ از محمداسمٰعیل قریشی روزنامہ ’نوائے وقت‘