کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 9
میں کوئی شفیع نہیں ہوسکتا۔ پس جس طرح بھی ہوسکے، اپنے اللہ کو راضی کرو اور اسے منالو۔ کیونکہ تم نے اپنی بدعملیوں سے اسے غصہ دلایا اور اس کے پاک حکموں کی پرواہ نہ کی اور تم یوں پکارو کہ اے ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کے ربّ اور اے رسول اُمّی صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردگار! ہم نے تیرے عہد کی پرواہ نہ کی اور اپنی بداعمالیوں سے تیری مقدس زمین کو ملوث اور گھناؤنا کردیا، لیکن اب ہم اپنی سزاؤں کو پہنچ چکے اور ہم نے بڑے سے بڑا دکھ اُٹھالیا۔ ہم مثل یتیم لڑکوں کے ہوگئے ہیں جن کے والدین کو ان سے جدا کردیا گیا ہو۔ کیونکہ ہمارا اللہ ہم سے راضی نہ رہا اور ہم غمگینی اور رسوائی کے لیے چھوڑ دیئے گئے۔ پر اے حی و قیوم! اب ہم پر رحم کر، ہمارے قصوروں کو معاف کر، اور ہم سے منہ نہ موڑ، گو ہماری خطائیں بے شمار ہیں ، لیکن ہم سب تیرے ہی نام لیوا کہلاتے ہیں اور تیری راہ میں دُکھ اٹھانے کے لیے تیار ہیں : اگر نہ بہرِ من، از بہرِ خود عزیزم دار کہ بندۂ خوبی او خوبی خداوند است ’’اگر میرے لیے نہیں تو اپنی خاطر ہی مجھے عزیز رکھ، کیونکہ کسی انسان کی کوئی خوبی صرف اور صرف اللہ تعالی ہی کی قدرت و عنایت سے ہے۔‘‘ تو نہ ہم کو بھول جا: اے ستار و تواب الرحیم! کیا ہمارا غم دائمی ہے؟ کیا ہمارے خزاں کے لیے کبھی بہار نہیں ؟ اور کیا ہمارے زخم کے لیے کوئی مرہم نہ ہوگا؟ اے نسل ابراہیمی ؑ کے اُمیدگاہ! تو ہمیشہ کے لیے ہمیں نہ بھول اور ہمیں اپنی طرف لوٹا لے، ہم تجھ سے ہمیشہ بھاگے ہیں مگر اب ہم تیری طرف لوٹ آئیں گے، کیونکہ ہمیں کہیں پناہ نہ ملی۔ اَمن وہدایت کی صداے بازگشت تو ہمیں نیکی اور صداقت کے لیے چن لے، اور اپنی ہدایت و عدالت کی تبلیغ کا بوجھ پھر ہماری گردنوں پر ڈال! دنیا آج انتہاے ترقی کے بعدبھی امن و عدالت کے لیے ایسی ہی تشنہ ہے، جیسی ظہورصداقت ِکبریٰ کے اوّلین عہدِجہالت میں تھی: ﴿ رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ﴾ (الاعراف:۲۳) ’’اے ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے ہاتھوں اپنانقصان کیا، اگر تو نے ہمارا قصور نہ بخشا اورہم