کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 67
بخلاف اللہ سے ڈرنے والے مؤمنوں کے، جیسا کہ قرآن میں ہے : ﴿وَاِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلَّاعَلَی الْخٰشِعِیْنَ﴾ (البقرۃ:۴۵) ’’بے شک یہ نمازبھاری ہے مگر اللہ سے ڈرنے والوں پر۔‘‘ چنانچہ ضروری ہے کہ آسانی وہ ہو جو شریعت کے اُصولوں کے عین مطابق ہو نہ کہ سائل اور مفتی کی خواہشِ نفس کے مطابق۔نصوصِ شریعت سے متصادم آسانی کو اختیار کرنا غلط ہے، کیونکہ شریعت سے متصادم آسانی دراصل اتباعِ خواہشات کے مترادف ہے جس سے روکتے ہوئے اللہ ربّ العزت نے فرمایاہے:﴿لَاتُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَيِ اﷲِ وَرَسُوْلِہٖ﴾ (الحجرات:۱) ’’اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو۔‘‘ شارع کا شریعت کو وضع کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ مکلف ِشخص اتباعِ ہویٰ سے نکل کراللہ کا بندہ بن جائے اور مفتی و عالم دین شخص کا یہی کام ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی حقیقی عبودیت سے متعارف کروائے اور من چاہی خواہشات کی پیروی کرنے سے منع کرے۔ ٭ اس بنا پر یہ رویہ ہی اُصولی طور پرغلط ہے کہ ہم اَحکامِ شریعت یا حج میں آسانیاں تلاش کرنا ہی اپنا ہدف بنا لیں ۔ ٭ اور یہ بھی غلط ہے کہ شریعت کے اُصولوں اور مقاصد سے متصادم آسانی تلاش کریں ۔ ٭ جب یہ امر واضح ہے کہ آسانی’مقاصد ِشریعت‘ میں سے ہے تو اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس آسانی کے حصول کی شرائط بھی پائی جائیں ۔آسانی ایک عام مقصدِ شرعی ہے، لیکن دیگر مبادیاتِ شریعت کی طرح اس میں بھی شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔ اِرشادِ باری ہے: ﴿وَقَالُوْا لَا تَنْفِرُوْا فِیْ الْحَرِّ قُلْ نَارُ جَھَنَّمَ أشَدُّ حَرًّا لَوْکَانُوْا یَفْقَھُوْنَ﴾(التوبہ:۸۱) ’’انہوں نے کہاکہ گرمی میں نہ نکلو، کہہ دیجئے جہنم کی گرمی اس سے بھی سخت ہے اگر وہ سمجھتے ہیں ۔‘‘ یہاں فوری طورپر جو بات سمجھ میں آتی ہے کہ شدتِ حرارت میں جہاد کے لئے نکلنا ہی تخفیف کا سبب ہے حالانکہ درحقیقت معاملہیوں نہیں بلکہ یہ ہے کہ ایسی تخفیف شریعت کے اہم ترین مقاصد یعنی اسلام کو غالب ترکرنے کے عظیم مقصد کے خلاف ہے اوراہل اسلام کو ہرطرح کی شروط و قیود سے آزاد آسانی اور تخفیف اختیار کرلینے سے یہ حقیقی سیادت (غلبۂ