کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 66
نیز فرمایا: ﴿وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ﴾ (الحج:۷۸) ’’اللہ تعالیٰ نے دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے: ((فإنما بعثتم میسرین ولم تبعثوا معسّرین))(صحیح بخاری:۲۲۰) ’’تم آسانی کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو، تنگی والے بنا کر نہیں بھیجے گئے۔‘‘ دوسری جگہ فرمایا: ((إن الدین یسر…)) ’’بے شک دین آسان ہے۔‘‘ (صحیح بخاری:۳۹) نیز سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ’’ما خُیِّر رسول اﷲ بین أمرین إلا اختار أیسرھما مالم یکن إثمًا‘‘ ’’دو معاملوں کے درمیان جب آپ کو اختیار دیا جاتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں میں جو آسان ہوتا وہ اپنا لیتے بشرطیکہ وہ گناہ نہ ہوتا۔‘‘ (صحیح بخاری:۳۵۶۰) نیز فرمایا: ((أحبّ الدین إلی اﷲ الحنیفیۃ السمحۃ)) (فتح الباری:۱/۱۱۶) ’’اللہ کے ہاں پسندیدہ دین، دینِ حنیف آسان اور نرم دین ہے۔‘‘ اس بارے میں کتاب وسنت میں اور بھی بہت سے دلائل موجودہیں ۔ اس شریعتِ مبارکہ کے آسان ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اللہ نے ہماری طاقت کے مطابق ہمیں مکلف بنایا ہے اور اس اُمت سے مشقت اور بارِگراں کو ختم کردیاہے۔ ٭ جیسا کہ مسافر کے لیے روزہ چھوڑنے اور نمازِ قصر پڑھنے کی رخصت ہے۔ ٭ بعض گناہوں پر مختلف قسم کے کفارے لاگو کردیئے ہیں جیسے قسم کا کفارہ وغیرہ۔ ٭ اسی طرح پانی کی عدم موجودگی میں غسل اور وضوکا متبادل ’تیمم‘ مشروع ہے۔ ٭ مریض آدمی اگر کھڑے ہوکر نماز اَدا نہیں کرسکتا تو بیٹھ کر پڑھ لے، اگر بیٹھ کر بھی نہیں پڑھ سکتا تو لیٹ کر پڑھ سکتا ہے۔ نیزبعض شرعی اعذار کی بنیاد پر بعض مخصوص افراد سے جمعہ،حج، عمرہ اور جہاد کو ساقط قرار دے دیاہے۔ الغرض دین آسان ہے، اس امرمیں کوئی اشکال نہیں ۔ البتہ اس آسانی کو سمجھنے کی ہماری کیفیت میں ضرور اِشکال پایا جاتا ہے۔ 2.اس آسانی کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے فہم کو شریعت سے تشکیل دینے کی کوشش کریں ،نہ کہ اپنے خودساختہ فہم کی بنا پر مرضی کی شریعت تشکیل دے لیں ۔ مثلاً خواہشاتِ نفس کی مخالفت کرنامشقت کا کام ہے اور منافقین نماز کے لیے سستی کی حالت میں آتے ہیں