کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 64
جواب:مذکورہ بالا اُمور یقیناجرم ہیں اور حکومت کو ان کے سد ِباب کے لیے ضرور سزا مقرر کرنا چاہئے۔ سوال7: کیا حکومت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ قرآنِ حکیم میں موجود طلاق سے متعلق اَحکام کی روشنی میں بوقت ِطلاق گواہوں کی موجودگی کو ضروری قرار دے؟ جواب:اگر ایسا کرنا ممکن ہو توگواہوں کی موجودگی کو ضروری قرار دیا جائے، لیکن راقم کے خیال میں ایسا کرنا بظاہر نہایت مشکل ہے، کیونکہ بالعموم طلاق اشتعال اور غصے میں دی جاتی ہے اور اکثر گھر میں سوائے بیوی یا بچوں کے کوئی نہیں ہوتا اور قوم کی جو اَخلاقی حالت ہے وہ محتاجِ وضاحت نہیں ، اس میں اس طرح جھوٹ کا دروازہ کھلنے کا بہت امکان ہے۔ اس کے بجائے زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ بیک وقت تین طلاق دینے کو قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے اور وکیلوں اور عرائض نویسوں کے لیے بھی سزا تجویز کی جائے تاکہ وہ طلاق نامہ لکھتے وقت صرف ایک طلاق ہی لکھیں اور یہ پوچھ کر لکھیں کہ بیوی کس حالت میں ہے؟ اور پھر وہ مسئلے کی وضاحت کرکے اس کو کہیں کہ جب بیوی کے ایامِ طہر ختم ہوجائیں اور وہ پاک ہوجائے تو پھر اس سے صحبت کیے بغیر ہمارے پاس طلاق لکھوانے کے لیے آنا۔ اس طرح کی قانون سازی اور اس پر پوری سختی سے عمل در آمدسے اور اس کو صحیح طریقے سے مشتہر کرنے سے پچاس فیصد سے زیادہ طلاق دینے کے واقعات ویسے ہی کم ہوجائیں گے بلکہ راقم کے خیال میں ۸۰ فیصد اِمکانات کم ہوجائیں گے۔ بشرطیکہ حکومت مخلص ہو اور سختی سے اس قانون پر عمل درآمد کراسکے۔اوریہ وقت کی ایک نہایت اہم ضرورت بھی ہے۔ حکومت لاکھوں نہیں کروڑوں روپے اشتہارات پر خرچ کرتی ہے ،اس قانون کی بھی وہ اَخبارات اور ٹی وی وغیرہ پر پبلسٹی کرے تاکہ عوام اس سے آگاہ ہوجائیں اور آئندہ کے لیے محتاط ہوجائیں اور خلاف ورزی کی صورت میں طلاق دہندہ اور عرضی نویس وکیل دونوں کوسزا دینے میں کوئی نرمی اور رو رعایت سے کام نہ لے۔ ھٰذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب!