کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 63
سے حلالہ کی شکل میں جو حیلہ اختیار کیا جاتا ہے، اُس کے تدارک کے لیے کوئی قدم اُٹھائے۔ جواب: یقینا ایک اسلامی حکومت کو یہ اختیار ہی نہیں بلکہ اس کا فریضہ ہے کہ وہ حرام کاری کی اس صورت کا سد ِباب کرے جو مذہب کے نام پر جاری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے،دونوں پرلعنت فرمائی ہے:((لعن اﷲ المحل والمحلَّل لہ)) (جامع ترمذی:۱۱۱۹) دوسری روایت میں حلالہ کرنے والے کو التیس المستعار (کرائے کا سانڈ) قرار دیا ہے۔ (سنن ابن ماجہ: ۱۹۳۶) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :کنّا نعد ھٰذا سفاحًا علی عھد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم (تفسیر ابن کثیر :زیرآیت فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد… الآیۃ) ’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں حلالے کی نیت سے کئے گئے نکاح کو ’زنا‘ سمجھتے تھے۔‘‘ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لا أوتی بمحلل ولا محلل لہ إلا رجمتھما (تفسیر ابن کثیرتحت آیت ِ مذکور) ’’حلالہ کرنے والا اور جس کے لیے حلالہ کیا گیا، اگریہ دونوں میرے علم میں آگئے تو میں دونوں کو رجم کردوں گا۔‘‘ جب اسلام میں مروّجہ حلالے کی یہ حیثیت ہے کہ یہ لعنتی فعل ہے، اس کو صحابہ عہد ِرسالت میں زنا میں شمار کرتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو زنا سمجھتے ہوئے اس پر رجم کی سزا دینے کا اِظہار فرمایا، تو حکومت ِوقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس لعنت کا سختی سے سدباب کرے بلکہ ایسے مفتیوں کے لیے بھی جو اس کے جواز کا فتویٰ اور ترغیب دیتے ہیں ، سزا تجویز کرے۔ سوال5: بدنیتی پر مبنی حیلہ بابت حلالہ پر عمل پیرا شخص کو سزاے رجم کی مناسبت سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منسوب قول کی صحیح تشریح کیا ہے؟ جواب: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول کی صحیح تشریح یہی ہے کہ اس حلالے کو حرام قرار دے کر اس پر حد ِزنا نافذ کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے۔اسکے علاوہ اسکی کوئی اور تشریح نہیں ہے۔ سوال6: اگر مذکورہ بالا اُمور جرم کے زمرے میں آتے ہیں تو کیا حکومت ِوقت ان جرائم کے لیے کوئی سزا مقرر کرسکتی ہے؟