کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 62
صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت موجود ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ، ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں اور حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی د و سالوں تک ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھیں ۔ مسنداحمد میں حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ موجود ہے، اُنہوں نے تین طلاقیں دے دی تھیں جس پر وہ سخت نادم ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پرجب اُنہوں نے یہ بتایا کہ اُنہوں نے یہ طلاقیں مجلس واحد میں دی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں رجوع کرنے کی اجازت دے دی، اور اُنہوں نے رجوع کرلیا۔ صحابہ کرام کے دور میں آج تک علما اور فقہا کا ایک عظیم گروہ مجلس واحد کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کرتا چلا آرہا ہے اور آج بھی متعددعلماے احناف اس مسلک کی صحت کے قائل ہیں اور اپنے ہم مسلک علماے کرام کو یہ تلقین کرتے ہیں کہ ’’طلاقِ ثلاثہ کے مسئلے پر جمود نے عوام کے لیے بڑی مشکلات کھڑی کررکھی ہیں ، اس کا حل یہی ہے کہ اہلحدیث کے موقف کواس مسئلے میں اپنایا جائے۔‘‘ علاوہ ازیں فقہ حنفی میں بھی یہ بات بیان کی گئی ہے کہ اگرتو طلاق دینے والے کی نیت صرف طلاق دینے کی تھی، تین طلاق کی نیت نہیں تھی، تو اس کو ایک ہی طلاق شمار کیا جائے گا۔ اس مسئلے کی پوری تفصیل، علمائے احناف کے ایک طلاق ہونے کے فتاویٰ اور دیگر مباحث کے لیے راقم کی کتاب ملاحظہ فرمائیں ، جس کا نام ہے : ایک مجلس کی تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل مشاہیر اُمت اور متعدد علمائے احناف کی نظر میں اس کا ایک نسخہ فاضل عدالت کے ملاحظہ کے لیے پیش خدمت ہے۔ علاوہ ازیں ماہنامہ الشریعۃگوجرانوالہ کے شمارہ بابت جولائی ۲۰۱۰ء میں مفتی محمد شفیع بانی دارالعلوم، کراچی کا ایک فتویٰ ’مجلس واحد کی تین طلاقوں کے ایک طلاق شمار کرنے‘ کا شائع ہوا ہے اور اُنہوں نے یہ کہا ہے کہ مخصوص حالات میں اس مسلک کو اختیار کرنا جائز ہے۔ سوال4: کیا حکومت ِوقت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ تین طلاق کے بعد خاوند کی طرف